نئی دہلی :
کانگریس نے کئی اہم تنظیمی تبدیلیاں کی ہیں ،ان میں سب سے اہم اقلیتی سیل سے ندیم جاوید کی چھٹی ہے ،ان کی جگہ معروف شاعر عمران پرتاپ گڑھی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے ان کو کئی سینیٹر لیڈروں پر ترجیح دی گئی ہے، حالانکہ ان کے پاس کوئی تنظیمی تجربہ نہیں ہے ۔دوسرے عمران مسعود کو دہلی کا سکریٹری بنایا گیا ہے۔

آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) نے آج تنظیم میں کئی سطح پر تبدیلیاں کیں، جن میں سب سے بڑی تبدیلی یہ رہی کہ عمران پرتاپ گڑھی کو اقلیتی ڈپارٹمنٹ کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔ یہ خبر آج کانگریس نے بذریعہ پریس ریلیز دی، جس میں بتایا گیا کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے عمران پرتاپ گڑھی کو فوری اثر سے اے آئی سی سی اقلیتی ڈپارٹمنٹ کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اب تک یہ ذمہ داری ندیم جاوید سنبھال رہے تھے اور کانگریس نے ان کی کارگزاریوں کی تعریف بھی کی۔ اس کے علاوہ کچھ ریاستوں میں اے آئی سی سی سکریٹریوں کی بھی تقرری کی گئی ہے جن کو اے آئی سی سی انچارج کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ اس فہرست میں عمران مسعود کا بھی نام شامل ہے جنھیں دہلی کا سکریٹری بنایا گیا ہے۔ سنجے دت کو ہماچل پردیش کا سکریٹری بنایا گیا ہے جو کہ اس سے قبل تمل ناڈو اور پڈوچیری میں اے آئی سی سی سکریٹری انچارج تھے۔
علاوہ ازیں رکن پارلیمنٹ سپتگری سنکر الکا کو چھتیس گڑھ، رکن اسمبلی دیپکا پانڈے سنگھ کو اتراکھنڈ اور برج لال کھبری کو بہار کا سکریٹری بنایا ہے۔ ان سبھی کو آئی سی سی انچارج کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شکست کے اسباب کا پتہ لگانے کے لیے تشکیل پانچ رکنی گروپ نے اپنی رپورٹ پارٹی صدر سونیا گاندھی کے حوالے کر دی ہے۔ گزشتہ 11 مئی کو تشکیل اس گروپ کو رپورٹ سونپنے کے لیے دو ہفتہ کا وقت دیا گیا تھا۔ بعد میں اس گروپ کو مزید ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا۔ گروپ میں کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید، منیش تیواری، ونسیٹ پالا اور لوک سبھا رکن جیوتی منی بھی شامل تھے۔
کانگریسی پہلے ٹوپیاں پہن کر اور افطار پارٹیاں کرکے ہندستانی مسلمانوں کو بے وقف بناتے تھے۔ اب تلک دھاری بن کر ہندوؤں کو پھنسانے کے چکر میں ہیں۔ پہلے وہ ہندو ووٹ کو جیب میں پڑا مال سمجھ کر مسلمانوں کو خوشامد کرتے پھرتے تھے۔ اب مسلمانوں حاشیے پر دیکھ کر ہندوؤں کو جھانسہ دینا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے کل جو مسلم لیگ نے کیا وہی ہندوؤں کے ساتھ اب بی جے پی کر رہی ہے۔
کانگریس کے پاس عقل باقی نہیں رہی اس لئے اب وہ نقل پر اتر آئی ہے۔ اقلیتی سیل کیلئے تازہ انتخاب غالبا بی جے پی کے اس نوع کے ترجمانوں کے انتخاب کی نقل ہے۔
سیکولرزم کے ساتھ زائد از نصف صدی تک غیر اخلاقی حرکت کرنے والے اب مذہب پرستوں کو کم سے کم تین دہائی جھیلیں۔ پھر انقلاب آئے گا، پھر تبدیلی آئے گی۔
تب تک کیلئے ردعمل پر سنجیدہ حکمت عملی کو ترجیح دیں۔ ابھی آگے اور بھی آزمائشیں سامنے آنے والی ہیں۔