تحریر:آشیش تیواری
انتخابی ریاستوں میں کانگریس ہر بار کچھ نہ کچھ ایسا کر کردیتی ہے،جس سے نتائج اس کے حق میں ہونے کی بجائے اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس بار بھی کچھ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے کانگریس لیڈروں نے اپنے لیے اسی طرح کا جال تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کانگریس گزشتہ کچھ عرصے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرح ہندوتوا کے راستے پر چلنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ اس سلسلے میںمدھیہ پردیش میں دوبارہ وہی غلطی دہرانے کی کوشش شروع کی گئی ہے۔
مدھیہ پردیش میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ چونکہ 2018 کے انتخابات میں کانگریس کو وہاں اقتدار ملا تھا۔ لیکن سیاسی الٹ پھیر اور سیاسی فارمولیشن کی وجہ سے اقتدار میں تبدیلی آئی اور بی جے پی کی حکومت واپس آگئی۔ 2018 کے پرانے فارمولیشن کو دیکھتے ہوئے کانگریس پارٹی نے ایک بار پھر ایسا حکم جاری کردیا جو ان کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار آر این چترویدی کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی نے مدھیہ پردیش میں اگلے سال ہونے والے انتخابات کے لیے سیاسی میدان تیار کرنے کے لیے ہندوتوا کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کے لیے مدھیہ پردیش کانگریس نے اپنے کارکنوں کو بھگوان رام کی کتھا اور رام لیلا کے ساتھ مدھیہ پردیش کے تمام گاؤں، تحصیلوں، شہروں اور قصبوں میں ہر چھوٹے بڑے مندر میں پوجا ارچنا کے لئے کہاہے۔ رام نوامی سے شروع ہونے والے اس پروگرام نے اپنے تمام کارکنوں کو ہنومان جینتی تک مندروں میں بھجن پوجا اور سندرکنڈ سمیت ہنومان چالیسا پڑھنے کو کہا ہے۔ چترویدی کہتے ہیں کہ یہاں کانگریس کو ہر بار شکست ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے ایشو کو آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں جس پر کانگریس کو کوئی نتیجہ نہ ملے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس خود بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسا موقع دیتی ہے، جس سے تمام اصل مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں اور ہندوتوا کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا کے مسئلہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینا اس وقت کسی اور سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔
کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے لیے ہندوتوا فارمولہ ناکام
سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی برجیش شکلا کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں بھی کانگریس لیڈروں نے نرم ہندوتوا کا راستہ اختیار کیا تھا۔ پرینکا گاندھی سے لے کر راہل گاندھی تک اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات میں مندروں میں پوجا کرنے لگے۔ برجیش شکلا کا کہنا ہے کہ جب بھی کانگریس اس نرم ہندوتوا ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اترتی ہے تو اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گجرات میں 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی راہل گاندھی نے وہاں کے مندروں میں جا کر پوجا کرنا شروع کی تھی۔ جیسے ہی راہل گاندھی نے مندروں کا دورہ کرنا شروع کیا، بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور حکومت میں ناراضگی اور انتخابات کے اصل مسائل کو ایک طرف کر دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہندوتوا اور ہندوتوا پارٹی کی بات آتی ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ جیتتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار جی ڈی شکلا کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے بھی یہی طریقہ استعمال کیا۔ سماج وادی پارٹی نے مختلف جگہوں پر پرشورام جینتی کا شاندار طریقے سے اہتمام کیا، کئی مقامات پر مندر بنائے اور ہندوتوا کے راستے پر چلنے کی کوشش کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے سماج وادی پارٹی نے تمام مسائل کو ایک طرف رکھ کر ایک بڑا موقع فراہم کیا اور انتخابات میں ہندوتوا کے ایشو کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہت زیادہ کیش کیا۔
کانگریس کو اپنے نظریے سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے
کانگریس کا اپنا ایک نظریہ ہے اور اسی نظریے کی بنیاد پر کانگریس نے طویل عرصے تک ملک پر حکومت کی۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر کا ماننا ہے کہ پارٹی کو اپنی لائن سے بالکل ہٹنا نہیں چاہئے۔ کیونکہ وقت ضرور اس وقت ان کے حق میں نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں چیزیں پھر سے ان کی طرف نہ آئیں۔ کانگریس کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ پارٹی ہائی کمان سے لے کر انتخابی ریاستوں میں حکمت عملی بنانے کے لیڈروں کو اس بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہئے اور اپنے نظریے سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ کانگریس کے ایک سابق مرکزی وزیر اور پارٹی میں سینئر عہدوں پر کام کرنے والے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ جب آپ ہندوتوا کارڈ پر کھل کر سامنے آئیں گے تو اس میں کانگریس کی جیت کے امکانات بہت کم نظر آئیں گے۔ کیونکہ جب ہندوتوا کی بات آتی ہے تو بہت سے حقیقی مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوتوا کو اپنا سیاسی ہتھیار سمجھ کر اسے پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس ہندو اور مسلم کی سیاست نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی میں دونوں برادریوں کے لوگوں کو عزت ملتی ہے۔ لیکن جب پارٹی مندر جا کر پوجا کرنے لگتی ہے تو نہ صرف پارٹی بکھر جاتی ہے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک بڑا موقع مل جاتا ہے۔ کانگریس ہندوتوا کے معاملے پر پیچھے ہے۔ کانگریس قائدین نے اپنی ہی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ کم از کم آئندہ اسمبلی انتخابات میں ہندوتوا کے مسئلہ کوآگے کرکے اس کی سیاست سے گریز کیا جائے۔
(بشکریہ : امر اجالا )