تحریر:وارث مظہری
ہندوستان میں مسلمان اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہیں اورجس کی سنگینی دن بدن بڑھتی جارہی ہے،اس کا ظہوریکایک اوردبے پاؤں نہیں ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یا تو ہم اس منڈلاتے ہوئے خطرے کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے جس کےمطابق ہم اس ملک میں اپنے تحفظ کے بندوبست کی منصوبہ بندی کرسکتے تھے یا پھر ایک غفلت اور بے جا خود اطمینانی کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ پاکستان کے پرجوش حامیوں سے جمیعت علمائے ہند کے دوراندیش قائدین: مولانا حسین احمد مدنی، حفظ الرحمن سیوہاروی ودیگرکا باصراروتکرارمختلف میٹنگوں میں یہی سوال تھا کہ آخر ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ کی کیا ضمانت ہے؟اس کا جواب جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا شبیر احمد عثمانی اوردیگرکی طرف سے یہ تھا کہ ریاست مدینہ کے طرزپرقائم ہونے والی یہ حکومت ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی مدد اور داد رسی کے لیے لبیک کہتی ہوئ ہر وقت کمربستہ رہے گی۔ اس طرح وہ خود کو حجاج بن یوسف اور معتصم باللہ کی پوزیشن میں دیکھ رہے تھے۔ہماری ملی واجتماعی تاریخ اسی نوع کی مذہبی رومانویت اورخوش خیالیوں سےتشکیل پائ ہے۔اورآج بھی یہی رومانویت پسندی حقیقت کو اسکی اصل شکل میں دیکھنے میں مانع ہے۔
تقسیم ہند کے سانحے کے بعد ہندوستان کے مسلم قائدین کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک دوررس اور قابل عمل لائحہ عمل تیار کریں۔ لیکن بظاہر ہمارے قائدین، وہ مذہبی ہوں یا سیکولر؛”وقت کے ساتھ سب کچھ درست ہوجانے”کی خوش فہمی میں مبتلا رہے۔
یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اب قصہ ماضی کو چھیڑنے کا کیا حاصل لیکن حقیقت یہ ہے کہ حال ومستقبل کی کوئ بھی منصوبہ بندی ماضی کےتجربات کو نظراندازکرکے نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں دشمنوں کے مظالم پر چیخ وفریاد کے ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں؟دیکھنا چاہئیے کہ ہماری اجتماعی کوششیں، ہماری ذہنی توانائی کہاں اور کیسے ضائع ہوئی؟-ہمارا ایک نہایت ذہین طبقہ اسلامی سیاسی نظام کی نظری بھول بھلیوں میں کھویا اور اس کی بازیابی کے لیے کوشاں رہا۔حالاں کہ اس کی معنویت خود مسلم دنیا کے لیے ختم ہوچکی تھی۔ہم تعمیرسے زیادہ تخریب کے ماتم اور احتجاج ومظاہرے میں اپنا وقت صرف کرتے رہے۔ہماری احتجاجی سیاست خود احتسابی اور سنجیدگی فکر کے ساتھ اپنے اجتماعی وجود کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مانع رہی۔
بہرحال ضرورت ہے کہ اب ماضی سے سبق لیتے ہوئے ایک نئی اجتماعی سوچ اورمنصوبہ بندی کے ساتھ قدم آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ اس تعلق سے یہاں چند عملی تجاویز پیش کی جاتی ہیں:
سب سے اہم اورضروری قدم یہ ہے کہ مسلمانوں اورغیرمسلموں کے درمیان جوکش مکش چلی آرہی ہے اسے کسی بھی قیمت پر ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔1947کے اپنے مشہور ‘’خطبہ مدراس’’ میں مولانا ابوالاعلی مودودی نےاس نہایت اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے لیے سب سے مقدم کام یہ ہے کہ ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو قومی کش مکش پیدا ہوگئی ہے،اس کو ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کی طرف سے ختم کردیا جائے۔(ص،13)کیوں کہ ہندوقومیت پرستی کی پہلی بنیاد انگریزی اقتدارسے نجات(جو حاصل ہونے کو ہے) اوردوسری بنیاد یہی ہے۔ (ص،12-22)۔مولانا مودودی کا مشورہ جس قدر کل صائب تھا اتنا ہی آج بھی بامعنی ہے۔یہ جنگ اس باہمی کش مکش کو ختم کیے بغیر جیتی نہیں جاسکتی خواہ اظہارشجاعت وشہادت کی جتنی بھی کوششیں کرلی جائیں۔ یہ بات کہنے کو آسان لیکن اسے عمل میں لانا دشوارتر ہے لیکن مسلم اہل دانش کوسیاسی ذہنیت سے اوپراٹھ کراس پہلو کوغوروفکر کاموضوع بنانا چاہیے اوردیکھنا چاہیے کہ اس کشمکش کے خاتمے کی کیا صورتیں ممکن ہیں؟ البتہ یہ طے شدہ ہے کہ اس کش مکش کے خاتمے کے لیے اصلا مسلمانوں کو ہی سامنے آنا ہوگا۔
• ہندؤں کے سیکولراورغیر جانب دار طبقے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رسم وراہ استوار کرنے اورمسلمانوں پر ہورہے مظالم کے خلاف جو لوگ آواز بلندکررہے ہیں،ان کو اپنے ساتھ لینےکی کوشش کی جائے۔ایسے لوگوں میں دوطبقوں کےافراد زیادہ موثرہیں:ایک سیاست سے دورسنجیدہ ہندومذہبی شخصیات اوردوسرے آزاد سیکولرصحافی۔ہندومذہبی شخصیات میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جن سے پہلی فرصت میں ہمارے مذہبی وقومی رہنماؤں کی ملاقاتیں ہونی چاہییں۔ ہندوشرپسند اورتخریب کارگروہوں کوسماج میں الگ تھلگ کرنے کےعمل میں یہ شخصیات سب سے زیادہ معاون ہوسکتی ہیں۔کیوں کہ آج بھی ہندوسماج انہی شخصیات کے زیراثرہے۔ ہندوتوکےعلم برداروں کے ذریعے ہندو مذہب کوہائی جیک کیے جانے کا عمل ان کے لیے بھی تکلیف دہ ہےکیوں کہ انہیں بخوبی احساس ہےکہ ہندومذہب کے سیاسی ٹھیکہ دار انہیں بھی حاشیہ پرلگانے کے لیے کوشاں ہیں۔
• امیرجماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی صاحب کی یہ بات نہایت اہم ہے کہ جارحیت پسند اوراس کے بالمقابل انصاف پسند طبقے کے درمیان پایا جانے والا غیرمسلموں کا وہ تیسرا طبقہ جوپہلے طبقے سے تیزی کے ساتھ متاثرہورہا ہے،ہماری اصل ترکیزاس پرہونی چاہیے کہ اس طبقے سے وابستہ افراد کے اذہان کوآلودہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
• کسی جمہوری ملک کی اقلیتوں کے لیے ان کے وجود کے استحکام کی سب سے اہم بنیاد ادارے اورتنظیمات ہوتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آزادی کے بعد ہم نے اس پرکوئی محنت نہیں کی۔ یہودیوں سے سبق لینے کی ضرورت تھی۔انہوں نےمغربی ممالک کے مخالفانہ ماحول میں مالیات،تعلیم،ابلاغ وغیرہ کےشعبوں کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا اورادارتی سطح پران شعبوں میں چھاگئے۔ ہم نے اجتماعی قوتوں کے ان تمام سرچشموں سے خود کودوررکھا اوراس حوالے سے مکمل طورپردوسروں پرمنحصررہے۔ ذرائع ابلاغ میں مناسب نمائندگی اور میڈیا ہاؤسزکا قیام ملک میں مسلم اقلیت کے لائف لائن کی حیثیت رکھتی تھی۔لیکن اس پر کوئ توجہ نہ دی جاسکی۔علما کا اجماعی فتوی یہ رہا کہ فوٹوگرافی حرام ہے۔ ملک کی ایک عظیم اور موقر دینی درسگاہ کا فتوی ہے کہ ایسا اسلامی ٹی وی چینل قائم کرنے کی اجازت ہے جس میں اسکرین پر تصویر نہ آتی ہو۔ ایسے ماحول میں دینی حلقے کی طرف سے مسلم میڈیا کا خیال معشوق کی موہوم کمر سے زیادہ کیا ہے۔ آج بھی مسلمانوں کی طرف سے ایسے ابلاغی اداروں کے قیام کی ضرورت ہے جن پرمسلم ہونے کا لیبل تونہ لگا ہولیکن وہ مسلم ایشوزکوغیرجانب داری کے ساتھ ملکی اوربین الاقوامی سطح پرسامنے لاسکیں۔آزادی کے پچھتر سالوں کے بعد بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں ہماری نمائندگی تقریبا صفر ہے۔ ہم اپنی آواز کواپنے ذرائع سے دنیا کے سامنے پیش کرنے سے کل بھی قاصرتھے،آج بھی قاصرہیں۔ہم آزادی کے بعد آج تک انگریزی یا ہندی میں نہ کوئی روزنامہ نکال سکے اورنہ ملکی سطح کا کوئی نیوزچینل شروع کرسکے۔ ہماری صحافت محض ملی صحافت ہوکررہ گئ۔ ملکی صحافت میں ہمارارول تقریبا صفرہوکررہ گیا۔ سوشل میڈیا پر ہمارا تحرک نظر توآتا ہے لیکن ظاہر ہےوہ کافی نہیں ہے۔
• اب تک ہمارا فوکس صرف مدارس اور مساجد کے قیام واستحکام پررہا ہےاس کے مقابلے میں دوسرے شعبوں کے قیام کوجن میں معیاری اسکولوں اورکالجوں کا قیام سرفہرست ہے،ہماری ترجیحات کی فہرست میں کوئی جگہ حاصل نہیں ہوسکی۔ یہ ہماری بہت بڑی اجتماعی ناکامی ہے۔ ضرورت ہے کہ مدارس پرصرف ہونے والے وسائل کا ایک قابل قدرحصہ اسکولوں اور کالجوں کے قیام پرخرچ ہو۔
• ہندو عوام وخواص سے ہمارا سماجی رابطہ مستحکم ہو۔ اس کے لئے مختلف سطحوں پر کوشش کی ضرورت ہے۔ماضی میں مساجد، مدارس اورخانقاہوں سے ہندو افراد اورسماج جڑے ہوئے تھے۔ ‘تاریخ دارالعلوم دیوبند'( از محبوب رضوی) کے مطابق ابتدا میں ہندو بچے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے اور اس کو چندہ دینے والوں میں ہندو بھی شامل تھے۔ یہ بات جس قدر بھی تلخ ہو ،حقیقت ہے کہ ہم نے آزادی کے بعد جو ادارے کھولے اورتنظیمیں قائم کیں،ان کا واسطہ زیادہ ترمسلمانوں سے رہا اوروہ زیادہ ترانھی کومقصود بناکر قائم کی گئیں۔ مثلاعیسائیوں کی طرح ایسے تعلیمی اورطبی ادارے:اسکول، ہسپتال اپنی تمام ترمذہبی ترغیبات کے باجود قائم نہیں کیے جاسکے جو برادران وطن کےساتھ دوری کو ختم کرنےاورمسلمانوں کی امیج کو بہتر بنانے میں معاون ہوں۔ اگرمدرٹریسا یا عبد الستار ایدھی جیسا خدمت خلق کا کوئی ادارہ مسلمانوں نے ہندوستان میں قائم کیا ہوتا توغیرمسلم ذہنوں پراس کے دوررس اثرات مرتب ہوتے۔ لیکن خدمت خلق کا شعبہ بھی ہماری توجہ سے محروم رہا۔
• غیر مسلموں سے بہترتعلقات کے قیام میں ہمارے بعض کمزورمذہبی نظریات کوبھی دخل رہا ہے۔مثلا یہ کہ غیرمسلموں کودوست بنانے(موالات) سےاسلام مسلمانوں کو منع کرتا ہے۔ان کے ساتھ قلبی دوستی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ صرف ظاہری خوش خلقی برتنے کے حکم دیا گیا ہے۔(موالات کی یہ تشریح مختلف اردو تفسیروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔جیسے بیان القرآن، معارف القرآن وغیرہ) یہ قرآن میں موالات کی حقیقت کی نہایت غلط تشریح ہے۔اصل میں اس حکم کا تعلق عام حالات سے نہیں بلکہ،جیساکہ صاحب ’تدبرقرآن’، یوسف قرضاوی اوردیگرمفسرین نے وضاحت کی ہے،جنگ کے حالات سے ہےجونزول آیات کے وقت درپیش تھے۔غیر مسلموں کوسلام،تہواروں پرمبارکباد اورسماجی تعاملات کی دوسری صورتوں کے حوالے سے پائے جانے والے ’فقہی تحفظات‘ نے آپسی دوریوں کوبڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ضرورت ہے کہ اس حوالے سے اسلام کے وسیع تر اخلاقی تصورات کوسامنے رکھتے ہوئے ان مسائل میں پائی جانے والی تنگی اورحرج کورفع کرنے کی کوشش کی جائے۔
• رسول اللہ کی حلف الفضول کی اسپرٹ کوسامنے رکھ کرایک ایسے غیرسیاسی متحدہ پلیٹ فارم یا تنظیم کے قیام کی ضرورت ہے جس کے تحت غیرمسلم موثرشخصیات کے ساتھ مل کرموجودہ صورت حال کے خلاف جنگ لڑی جاسکے۔جمعیت علما ہند یاجماعت اسلامی اس جانب مضبوطی کے ساتھ پہل کرسکتی ہے۔ یہ ضروری ہوگا کہ اس کے تاسیسی ارکان اورارباب حل وعقد میں غیر مسلم موثر شخصیات شامل ہوں۔سیاست اورسیاسی شخصیات سے مکمل دوری اس اجتماعی کوشش کی کامیابی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
• مسلمانوں کومایوسی اورخوف زدگی سے بچانا نہایت ضروری ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک طبقے کی طرف سے جس نوع کی زبان استعمال کی جارہی ہے،وہ مثبت سے زیادہ منفی نتائج پیدا کرنے والی ہے۔ بعض مذہبی اصطلاحات کے بے جااستعمال اور اس کش مکش میں تاریخی واقعات کےحوالے سے اپنی برتری کا اظہار صورت حال کی سنگینی کو مزید بڑھانے والے ہیں۔ ہماری دینی تنظیموں کو کھوکھلی جذباتیت کی عکاسی کرنے والے اس رجحان کا بروقت نوٹس لینا چاہیے۔
بہرحال موجودہ صورت حال میں ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے، اس تعلق سے یہ چند تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ان سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔ لیکن امید ہے کہ وہ اس موضوع پرغوروفکرکی راہوں کوہموارکرنے میں معاون ہوں گی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)