عبدالسلام عاصم
اچھائی اور برائی دونوں کے اعتبار سے دنیا گول ہے۔ ماضی بعید کی دنیا میں یہ گولائی محدود نوعیت کی تھی جس میں سماجی برائی پر اچھائی کے حاوی ہونے، پھر کچھ دہائیوں کے بعد برائی کے دوبارہ سر اٹھانے اورپھر اُس کا سر کچلنے کا سلسلہ جاری رہا کرتا تھا۔ زمانے کی رفتار نے جب ایک ہی دنیا کو پسماندہ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ خانوں میں بانٹا تو گولائی در گولائی پھیلتی دنیا میں گولائیوں کے محور بھی الگ ہوتے گئے۔ زمانے کی بڑھتی رفتار کو جب اطلاعاتی تیکنالوجی کی مہمیز لگی تواُسی مناسبت سے ان محوروں کی جگہیں بھی بدلتی گئیں۔
تازہ منظر نامے میں اچھائی کے لحاظ سے گول دنیا کا ایک محور خلیج رخی مغربی ایشیا ہے تو برائی کے لحاظ سے دوسرا محورافغان رخی جنوبی ایشیا۔ دونوں جگہ خاکوں میں رنگ بھرے جارہے ہیں۔ بظاہر ایک خاکے میں یہ رنگ سبز اور نیلے نظر آ رہے ہیں تو دوسراخاکہ اپنے اندر ابس ایک ہی رنگ کی گنجائش رکھتا ہے اور وہ رنگ ہے سُرخ۔ کہتے ہیں کہ رنگوں کا انتخاب انسانی فکر کی وسعت اور تنگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ فکر جتنی محدود ہوگی ماحول اتنا یک رنگ ہوگا اور فکر کا دائرہ جتنا وسیع ہوتا جائے گا اس میں اتنی رنگا رنگی پیدا ہوتی جائے گی۔
رنگوں کا انتخاب اور امتزاج دونوں انسان کے تہذیبی رشتوں کی وحدت کی غمازی کرتے ہیں۔ شاملِ کثرت اکائی جہاں گنجائشوں سے بھر پور ہوتی ہے وہاں رنگوں کے امتزاج کو انجوائے کیا جاتا ہے اور جہاں اس گنجائش میں کمی ہوتی ہے وہاں ہر اکائی کے اندر اپنے آپ میں مکمل ہونے کا غرور زیادہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ایسا علم پر عقیدے کو ترجیح دینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک سے زیادہ عقائد میں ویسے بھی صحتمند ہم آہنگی کم اورمضرت رساں اختلافات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا تجربہ ہم یہاں بر صغیر میں کر رہے ہیں۔
رنگوں کے امتزاج کو انجوائے کرنا اصل میں یورپ کا مزاج ہے اور یہ اسی کی برکت ہے جو مغربی ایشیا کو زیر اثر لے رہا ہے۔ ہم اِدھر مایوس تو نہیں ہیں لیکن ہمیں آج بھی امکانات سے زیادہ اندیشوں کا سامنا ہے۔ان اندیشوں میں سے ایک نیا اندیشہ افغا نستان کے رُخ پر ابھرا ہے جہاں بظاہر ایک پھر کردار بدل کر پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ غرض پسند سیاست میں انسانوں کو سازوسامان کی طرح استعمال کرنے والی سرمایہ دار قوتیں آج بھی وقتی نفع نقصان کے رخ پر ہی اپنی حکمتیں مرتب کرتی ہیں۔ ماضی قریب میں متعلقہ خطے میں ہم نے مجاہدین اور دہشت گرد کے کرداروں کے تبادلے ہی نہیں دیکھے بلکہ فارغین کے ہاتھوں طالبان کا بے جا استحصال اور ان کی طرف سے اپنی ہی فروخت کردہ منشیات پر پابندی کے تادیبی اقدامات کا مشاہدہ بھی کیا۔
اس بار افغان رُخی کاروبار میں چین بھی بزعم خود ایک بڑے اسٹیک ہولڈر کی طرح شریک نظر آتاہے، جو نئے زمانے کا بہ انداز دیگر سرمایہ دار ہے۔ آزمودہ تجربہ گاہ میں ظاہر ہے کہ امریکہ جہاں اپنے تجربے کی بنیاد پر اپنا رول طے کرے گا، وہیں روس اپنے علاقائی مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کا اولین ترجیح دے گا، چین کیلئے میدانی تقاضے نسبتاَ نئے ضرور ہیں لیکن چیزیں براہ راست اس کے عالمی عزائم سے جڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان اپنی روایتی ہند دشمنی میں اس مرتبہ امریکہ کے بجائے چین کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ایسے میں ہندستان کو امریکہ کے ہاتھوں چین کے خلاف بالواسطہ استعمال ہونے سے بچنے کیلئے طالبان کے ساتھ پاکستان کی دوہری ڈیلنگ کو ناکام بناناہوگا جو زبردست سیاسی حکمت کا متقاضی ہے۔ بہ الفاظ دیگر سرحدوں پر چین کی طرف سے فوجی الجھاؤ اور پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے گھاؤ، دونوں کی دھار کند کرنے میں ہندستان کو تکنیکی طور پر انتہائی حکمت سے کام لینا ہے۔
یہ امر اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکہ دنیا میں کسی سے بھی اشتراک عمل اپنے محدود مفاد کیلئے کرتا ہے۔پاکستان کو امریکی کی اِس خارجہ پالیسی کا خاطر خواہ تجربہ ہے۔امریکہ کی یہی غیر انسانی سوچ اسے یورپ کی سوچ سے الگ کرتی ہے۔ یورپی ممالک خطرناک چالیں چلنے پر مربوط اقدامات کر ترجیح دیتے ہیں۔ اِس کا مظاہرہ انہوں نے کورونا کے حالیہ محاذ پر بھی کیا ہے اور وہ امریکہ سے زیادہ کامیاب رہے۔
افغانستان میں جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں وہ بظاہر جنوب ایشیا کے بر صغیر رُخی حصے کیلئے مستقبل قریب کی ایک بڑی علاقائی مصیبت کا پیش خیمہ بنتا نظر آ رہاہے۔کچھ اقوام جو اپنے ”آج“ سے ہمیشہ ماضی اور مستقبل کے حوالے سے رجوع کرتی ہیں اُنہیں اپنے خسارے کی فکر کم ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھ درپیش ہر واقعے کو طے شدہ مان کر چلتی ہیں۔بد قسمتی سے افغان سوچ ابھی تک اس حصار سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔دسمبر 1979 میں سوویت قبضے کے خلاف افغان سرداروں اور قبائلیوں نے جذبہ حریت سے شعوری کام لینے کے بجائے لا شعور میں امریکی آلہ کار بننے سے قطعی گریز نہیں کیااور اس راستے میں وہ اتنا آگے نکلتے چلے گئے کہ ابتک گھر نہیں لوٹ سکے ہیں۔ اپنے مقصد میں کامیاب امریکہ نے جب انہیں استعمال کرنا بند کر دیا تو بیروزگاری نے انہیں القاعدہ کے ہتھے چڑھا دیا تھا۔ اس طرح راتوں رات مجاہدین دہشت گرد بن گئے۔
تازہ منظر نامے میں روس اپنے ماضی کے خسارے کو روایتی طریقے سے پورا کرنا نہیں چاہے گا۔وہ امریکہ اور چین دونوں سے ایک فاصلہ بنا کر اپنے مفادات کی حفاظت کرنا سیکھ چکاہے۔ ماضی میں جس طرح امریکہ نے چین کو سابق سوویت یونین کے خلاف اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تھا۔ روس کسی امریکہ دشمنی میں چین سے اُس طرح اندھا استفادہ کرنا نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس تفہیم میں چین سے بھی آگے نکل چکا ہے کہ بڑی طاقتوں کیلئے عالمی سیاست کی نوعیت اب فوجی نہیں رہ گئی۔
ادھر طالبان کے بڑھتے عزائم، حالیہ دنوں میں ڈگمگاتی افغان حکومت کو سنبھالا دینے کی امریکہ کی آتشیں فوجی کارروائی،پاکستان کی ہمسائے کے گھر کی آگ سے مفروضہ دشمن کے خلاف کھیلنے والی خارجہ پالیسی اورعلاقائی اضطراب کی ایک سے زیادہ رُخ پر بگڑتی صورتحال کے پیش نظر حالات دن بدن بلکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔افغان حکومت نے طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو ختم کرنے اور حملوں کو روکنے لئے ایک طرف جہاں زبردست کارروائی کرتے ہوئے دو روز قبل باقاعدہ مقابلوں میں 262 طالبان کو ہلاک کر دیا ہے وہیں ملک کے 31 صوبوں میں کرفیو نافذ کردیا گیاہے جس کا مقصد طالبان کے حملوں اور ان کی نقل و حرکت کو روکنا ہے۔ہرچند افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ تمام صوبوں میں طالبان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور افغان فورسز ہر طرح سے مسلح ہیں لیکن پاکستان اس منظرنامے کو اسی طرح پروان نہیں چڑھنے دے سکتا ہے۔وہ افغان خانہ جنگی سے اپنی خارجہ پالیسی کے حق میں نفع کشید کرنے کی ایسی کوئی کوشش سے باز نہیں آئے گا جو ہندستان کیلئے موجب تشویش نہ ہو۔ ایسے میں میانمار میں چین کے بڑھتے عزائم سے ہندستان کے رُخ پر پاکستان بھی استفادہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
ان سب خرابیوں کے طواف کا محور بن کر رہ جانے والے افغانستان کی قسمت بھی عجیب ہے۔ تمام تر بلند بانگ دعووں کے برعکس تاریخ کا بے لاگ مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ ماضی بعید میں یہ خانماں برباد ملک جہاں اشوک اور اکبر کے زیر نگیں رہا وہیں ابھی گزرے ہوئے کل میں اسے سابق سوویت یونین اور امریکہ کے تسلط میں دن، مہینے سال اور دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑا تھا۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان واقعات سے افغان زندگی میں کوئی ایسا انقلاب برپا نہیں ہوتا جس سے کوئی نئی تاریخ مرتب ہو۔ سوویت مداخلت سے عین پہلے کے افغانستان میں بھی ارتقا پذیر زندگی چند شہروں تک ہی محدود تھی۔
اصل میں افغانستان کا صرف گیارہ فیصد علاقہ شہری ہے اور ۸۹ فیصد افغانستان آج بھی دیہات میں ہی بستاہے۔ افغان دیہات ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے گاووں کی طرح نہیں۔ افغان دیہی علاقے خالص قبائلی زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں، جہاں آج بھی لوگ قرون وسطیٰ جیسی سوچ رکھتے ہیں۔نئی الفی کی دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اکیسویں صدی کے اکیس سال بھی افغانستان میں بلوغت کے سفر کا دائرہ جسم سے دماغ تک وسیع کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے۔فخر اور تعصب کسی بھی قوم کو اندر ہی اندر نگل جاتی ہے۔ افغان طالبان ہوں یا دیگر افغان سب اسی کے اسیر چلے آرہے ہیں۔ انہیں غیر افغان قوتوں نے ہمیشہ آلے اور ساز و سامان کی طرح استعمال کیا ہے۔تاریخ میں ہم جسے اولین انگریز۔افغان جنگ کے عنوان سے پڑھتے آئے ہیں اُس جنگ میں بھی بے شمار افغان سردار اور قبائلی انگریزوں کے ہمراہ شریک جنگ تھے۔
حالات کے تازہ موڑ پربھی جہاں امریکہ اپنا گزر بسر دونوں ختم کر رہا ہے، طالبان کو جن فکرات نے گھیر رکھا ہے اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ عورتوں کو کس طرح دنیا کی آگاہی سے دور رکھا جائے۔طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد افغان خواتین نے سکھ کا سانس لیا تھا اور وہ تیزی سے زندگی میں واپس آنے میں کامیاب ہونے لگی تھیں۔پچھلی دو دہائیوں سے خاص طور پر افغان خواتین کے لیے ملک میں بہت سی ایسی تبدیلیاں آئیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لڑکیاں اسکول جانے لگی تھیں، خواتین سیاسی میدان اور کاروبار میں آگے آنے لگیں، لیکن طالبان تحریک کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ دہائیوں کے یہ فوائد مہینوں میں ضائع ہو سکتے ہیں۔