73 سالہ بینجمن نیتن یاہو اسرائیل کے نئے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ملک میں ‘بی بی’ کے نام سے مشہور نیتن یاہو نے جمعرات کی رات اپنے عہدے اور رازداری کا حلف اٹھایا۔ ‘ٹائمز آف اسرائیل’ کے مطابق نیتن یاہو کی قیادت میں چھ جماعتوں کی یہ مخلوط حکومت ملکی تاریخ کی اب تک کی سب سے زیادہ بنیاد پرست حکومت ہے۔ خدشہ ہے کہ فلسطین کے ساتھ تنازع بڑھے گا۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کو کنیسٹ کہا جاتا ہے۔ جمعرات کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ماحول کافی گرم رہا۔ نیتن یاہو کو چھٹی بار وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔ پارلیمنٹ کے باہر بھی ان کے مخالفین نے بینر پوسٹر لگا کر احتجاج کیا۔اسرائیل کی سیاست میں حکومتیں بدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جمعرات کو جب نیتن یاہو نے حلف اٹھایا اور اس کے بعد اپنی نشست کی طرف چلنے لگے تو سابق وزیراعظم یائر لاپڈ نے ان سے مصافحہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اسرائیل میں یہ 37ویں حکومت ہے جسے 1948 میں علیحدہ ملک کا درجہ ملا۔ تقریباً 75 سال کی پارلیمانی تاریخ میں آج تک کسی بھی جماعت نے اپنے بل بوتے پر مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت نہیں بنائی۔اسرائیلی پارلیمنٹ میں کل 120 نشستیں ہیں۔ نیتن یاہو کے اتحاد کی 63 نشستیں ہیں۔
ان کی لیکود پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق – نیتن یاہو کے لیے اس حکومت کو چلانا بہت مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ہر قدم پر اتحادیوں سے مدد لینی پڑے گی۔ اور یہ سب فلسطینی اور عرب مخالف ہیں۔نیتن یاہو کو عالمی سیاست اور سفارت کاری کو بھی دیکھنا ہوگا۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ ملکی سیاست اور عالمی سفارت کاری کے درمیان کس طرح توازن برقرار رکھتے ہیں۔اتحادی حکومت میں شامل دیگر جماعتیں مغربی کنارے یا مغربی کنارے سے فلسطینی بستیوں کو فوج کی مدد سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ اس سے تنازعہ مزید بڑھے گا۔
حماس کے حملوں کا بھی بڑا خطرہ ہے۔حماس کے حملوں سے اسرائیل میں زیادہ نقصان نہیں ہوتا کیونکہ اس کا فضائی دفاعی نظام ان راکٹوں کو ملک کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی مار گراتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود حماس کے لوگ یہاں کسی نہ کسی شکل میں حملے کرتے رہتے ہیں۔نیتن یاہو کو اتنا بنیاد پرست رہنما نہیں سمجھا جاتا جتنا اس بار ان کے اتحاد میں شامل رہنما ہیں۔ اس لیے مسئلہ فلسطین دوبارہ کشیدگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ تمام رہنما عدالتی نظام کو یہودیوں کے مطابق بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ فلسطین پر سخت پابندیوں کی بات کی۔ وہ فلسطین کو مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان تمام معاملات سے حماس جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کشیدگی بڑھے گی اور جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔