کانپور( آر کے بیورو؍پریس ریلیز)
مسلم پرسنل لا ءبورڈ کے دوروزہ اجلاس کے آخری دن بورڈ نے اتفاق رائے سے کئی قراردادیں منظور کیں ،جن میں مختلف امور کا احاطہ کیا گیا اور حکومت سے مطالبات کیے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ واضح رہے پریس کانفرنس بھی ہوئی، حالانکہ پہلے طے کیا گیا تھا کہ کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوگی۔
تاریخ میں جو مذہبی پیشوا گزرے ہیں، بہت سے لوگ ان پر ایمان رکھتے ہیں اور ان سے لوگوں کے قلبی جذبات وابستہ ہیں، ان کی شان میں گستاخی صرف ایک مقدس شخصیت ہی کی اہانت نہیں ہے؛ بلکہ کروڑوں انسانوں کی دل آزاری ہے، ہندوستان ایک کثیر مذہبی ملک ہے، جس میں مختلف عقائد کے حاملین رہتے ہیں اور اُن کا مرکز عقیدت الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیشہ وطن عزیز کے باشندگان نے ایک دوسرے کے جذبات کا لحاظ رکھا ہے، مقدس شخصیتوں اور کتابوں کے بارے میں گستاخانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب کیا ہے اور اسی رواداری نے کثرت میں وحدت کے تصور کو تقویت پہنچائی ہے؛ چنانچہ معتبر ہندو، سکھ اور دیگر غیرمسلم بزرگوں نے ہمیشہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی ہمیشہ اسلامی تعلیمات کے مطابق دیگر مذاہب کی مقدس شخصیتوں کے سلسلہ میں دل آزار کلمات کہنے اور لکھنے سے گریز کیا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ حالیہ عرصہ میں بعض شرپسندوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کھلے عام گستاخی کا ارتکاب کیا ہے، اورحکومت نے اس کو روکنے کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی۔ فرقہ پرست عناصر کی طرف سے یہ دل آزار رویہ قطعاً ناقابل قبول ہے، یہ ملک کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش اور حب الوطنی کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے مسلمانوں کے رہبر و رہنما اور رحمت العالمین ہیں۔ مسلمان انہیں ہرچیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، حتیٰ کے اپنی جان سے بھی زیادہ۔ ان کی شان میں گستاخی سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہوںگے اور دنیا میں ملک کی تصویر بھی داغدار ہوگی۔ اس لئے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ مقدس مذہبی شخصیتوں کی شان میں گستاخی کرنے والے حضرات کو قرارواقعی سزا دی جائے اور حکومت اس کے لئے مؤثر قانون سازی کرے۔
ہندوستان کثیر مذہبی ملک ہے، اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کا دستور بنایا گیا ہے اور ہرشہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کا حق دیا گیا ہے، ایسے بڑے ملک اور کثیر مذہبی سماج کے لئے یکساں سول کوڈ نہ مناسب ہے اور نہ مفید۔ بھارت میں اس طرح کی کوشش دستور میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے بھی مغائر ہیں۔ اس لئے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ملک پر براہ راست یا بالواسطہ اور کلی یاجزوی کامن سول کوڈ مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یہ ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہے۔
بورڈ کا یہ اجلاس اس بات کو واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ جب کوئی چیز وقف کردی جاتی ہے تو وہ انسان کی ملکیت سے نکل کر براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں آجاتی ہے، اب وقف کرنے والے کے بشمول کسی فرد، جماعت یا حکومت کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ اس کو فروخت کردے یا وقف کے منشاء کے خلاف کسی اور کام میں استعمال کرے؛ اس لئے حکومت یا کسی بھی متولی کا اوقاف کی جائیداد میں تصرف کرنا یا بعض عدالتوں کی اراضی کو بیچنے کی اجازت دینا اسلامی شریعت اور قانون وقف کے خلاف ہے۔ یہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور شرعی قوانین میں مداخلت ہے اور مسلمان اسے قبول نہیں کرسکتے۔
مذہبی احکام اور کتابوں کا تعلق عقیدہ و یقین سے ہے؛ اس لئے اس کی تشریح کرنے کا حق ان ہی لوگوں کو ہے جو اس مذہب پر یقین رکھتے ہوں، اس مذہب سے واقف ہوں اور مذہب کے معتبر لوگوں کے نزدیک وہ مذہبی کتب اور اصطلاحات کی تشریح کے اہل سمجھے جاتے ہوں۔ حکومت یا عدالت کو اپنے طور پر مذہبی کتابوں یا مذہبی اصطلاحات کی تشریح و توضیح کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ شہریوں کو جو مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے، یہ اس میں بھی مداخلت ہے۔ اس لئے بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت اور عدلیہ ایسے کسی بھی کام سے گریز کرے۔
یہ اجلاس اس بات پر سخت رنج کا اظہار کرتا ہے کہ وطن عزیز میں خواتین مسلسل مظالم کا شکار ہورہی ہیں۔ جہیز کی وجہ سے اموات بڑھتی جارہی ہیں، عورتوں کو معلق رکھنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ماں کی کوکھ میں لڑکیوں کا قتل عام سی بات ہوگئی ہے، انہیں ترکہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔ آفسوں، تعلیمی اداروں یہاں تک کہ ٹرینوں اور بسوں میں بھی عصمت ریزی کے متعدد واقعات پیش آرہے ہیں، اب چھوٹی اور نابالغ بچیوں کو بھی ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لڑکیوں کی شادی میں ان کی مرضی کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور خاندان کے لوگ ان کو اپنی پسند قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں، یہ صورت حال غیرانسانی اور غیراخلاقی ہے، یہ اجلا س حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خواتین کے تحفظ کے لئے مؤثر قوانین بنائے اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنائے۔
اقلیتوں کا تحفظ تمام حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر افسوس کہ جنوبی ایشیاء کے خطہ میں اس پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ ماضی قریب میں بنگلہ دیش میں ہندوبھائیوں کے بعض مندروں کو نقصان پہنچایا گیا اور لوگوں پر حملے کئے گئے۔ یہ یقینا ایک قابل مذمت فعل ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس کی مذمت کی ہے؛ لیکن اس کے بعد شمال مشرقی ریاست تری پورہ میں بغیر کسی وجہ کے مسلمانوں کی جان و مال کو جو نقصان پہنچایا گیا اسی طرح متعدد مساجد پر جو حملہ کیا گیا اور ان کے تقدس کو پامال کیا گیا، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ پھر اس پر پولیس کی طرف سے بلوائیوں کی مدد اور خود مسلمانوں پر زیادتی ستم بالائے ستم ہے نیز یہ حکومت کی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اور اقلیتوں اور دلتوں سے متعلق اس کی امتیازی پالیسی کا ثبوت ہے، مسلمانوں کا یہ نمائندہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں، دلتوں، دیگر کمزور طبقات اور خواتین پر بڑھتے ہوئے مظالم کی طرف خصوصی توجہ دے۔ ملک کے ہر شہری کے لئے امن و امان فراہم کرے، ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرے، بالخصوص ماب لنچنگ کے وحشیانہ اور غیرانسانی طریقہ کو روکنے کا مؤثر طریقہ اختیار کرے اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دے، یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس کے بغیر ایسے واقعات کا تدارک نہیں ہوسکتا۔
یہ اجلاس مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ پر شریعت کو نافذ کریں، نکاح میں سادگی کو اختیار کریں، لڑکی والوں سے کسی قسم کا مالی مطالبہ نہ کریں، فضول خرچی سے بچیں، خواتین کو ان کا حق میراث دیں، ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے حقوق کا خاص طور پر خیال رکھیں، اپنے باہمی نزاعات کو ثالث کے ذریعہ حل کرائیں اور اس سے کام نہ چلے تو دارالقضاء سے رجوع کریں۔ بین مذہبی شادی سے پوری طرح اجتناب کریں، کیوںکہ اس سے سماج میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی متأثر ہوتی ہے۔
بورڈ مسلمانوں او ر غیرمسلم بھائیوں سے بالخصوص علماء و وکلاء سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلام کے معاشرتی قوانین کو پڑھیں، اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، غلط فہمیوں سے بچیں اور دوسروں کی بھی غلط فہمیاں دور کریں، کیوں کہ اسلام کا قانون معاشرت پوری طرح انسانی ضرورت و مصلحت سے ہم آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں خاندانی زندگی سے متعلق جو قوانین مرتب کئے گئے ہیں، اس میں مسلم پرسنل لا سے بہت زیادہ استفادہ کیا گیا ہے۔
دستور ہند میں ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی کا جو حق دیا گیا ہے، اس میں مذہب کی تبلیغ بھی شامل ہے، اگر کوئی شخص جبر و دبائو اور مالی تحریص کے بغیر اپنے مذہب کی خوبیوں کو بتاکر تبلیغ کرتا ہے تو اس کی اجازت ہے، مسلمانوں نے اس ملک میں کبھی بھی تبلیغ مذہب کے لئے جبر و دبائو اور لالچ دینے کا راستہ اختیار نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلمان ہمیشہ اقلیت ہی میں رہے حالیہ دنوں میں بعض لوگوں نے اپنے مرضی سے اسلام قبول کیا، انہوں نے پولیس یا عدالت میں یہ دعویٰ دائر نہیں کیا کہ انہیں زبردستی مسلمان بنالیا گیا ہے؛ لیکن پھربھی تبلیغ مذہب کا کام کرنے والوں پر جھوٹے مقدمات درج کئے گئے، جب کہ دوسری طرف بعض فرقہ پرست کھلے عام تبدیلی مذہب کا نعرہ لگارہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے، یہ واضح طور پر دستور کی خلاف ورزی اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے، اس لئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی گروہ کے بنیادی حقوق میں مداخلت کرنے سے باز رہے، اور تمام طبقوں کے ساتھ منصفانہ اور مساویانہ طرز عمل اختیار کرے۔ جو لوگ بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار ہیں، انھیں فی الفور رہا کیا جائے اور ان پر سے مقدمات واپس لئے جائیں۔
گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ متھرا کے سلسلے میں فرقہ پرست عناصر خاص طور پر ہندومہاسبھا کی جانب سے جو شرانگیزی کی جارہی ہے، اور جس طرح ماحول کو خراب کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہونچانے کی کوشش ہورہی ہے، آج کا یہ اجلاس اسکی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اسے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے نقصان دہ قرار دیتا ہے، نیز حکومت کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ فرقہ پرست عناصر بالخصوص ہندومہاسبھا کی شرانگیز کارروائیوں پر فوراً روک لگائے، اور مذہبی مقدس مقامات کے تحفظ اور ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بقاء کو یقینی بنائے۔
گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت و بغض و عناد پر مبنی پروپگنڈہ کیا جارہا ہے، ان پر بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں، ان کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر زہریلی، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقاریر اور مواد پوسٹ کیا جارہا ہے۔ اس طرح ملک کی فضا کو فرقہ وارانہ خطوط پر مسموم کیا جارہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت سوشل میڈیا پر ہورہی فرقہ واریت اور اشتعال انگیزی کی روک تھام اور شرپسند عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔