تعارف وتبصرہ نام کتاب:
مصنف: ذکی الرحمٰن غازی مدنی
صفحات: 96
اشاعت: 2020
مبصر : سراج احمدبرکت اللہ فلاحی نیپال
اس کتاب کے فاضل اور ہونہار مصنف مولانا ذکی الرحمن غازی فلاحی کا شمار نوجوان مصنّفین میں ہوتا ہے۔ وہ جامعۃ الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو ، جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فیض یافتہ ہیں۔ فضیلت اور تخصص کی دوہری سند رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ ندوی، فلاحی اور مدنی لکھنے میں حق بجانب ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی ادب میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ الحمدللہ بلا کی ذہانت رکھتے ہیں۔ بھارت کے مشہور اور مرکزی تعلیمی ادارہ جامعۃ الفلاح بلریاگنج میں استاد ہیں۔ شعبہ اعلیٰ عربی درجات میں تفسیر اور عربی ادب کے ماہر اور کامیاب استاد مانے جاتے ہیں۔ تدریس کے ساتھ بڑا وقت مطالعہ اور تصنیف وتالیف میں صرف کرتے ہیں۔ اللہ نے انہیں کمال کی یکسوئی، صحت وتندرستی، ذہن ودماغ کی تیزی اور سیال قلم سے نوازا ہے۔ وقت میں بڑی برکت دے رکھی ہے۔ بہت ہی کم وقت میں تقریباً چالیس کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا کام انجام دے چکے ہیں۔ جن میں کئی کتابیں کافی اہم اور ضخیم ہیں اور زیور طبع سے آراستہ ہو کر ایک بڑے حلقہ میں داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔امید ہے کہ اس کتاب کو بھی زبردست پذیرائی ملے گی۔
آج جب کہ علم اور وسائل علم میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے اور حصول علم دن بدن آسان ہوتا جارہاہے۔ اس کے باوجود بعض مسلمان انتہائی ضروری معلومات حاصل کیے بغیر بعض دوسرے مسلمانوں کو اہل السنت والجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں اور ان کے دین وایمان کی نفی کرتے نظر آتے ہیں ۔ حد درجہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب نام نہاد مفتی حضرات متعلق فرد یا افراد، مکتب فکریا ادارہ، جماعت یا جمعیت کے بارے میں براہ راست ضروری اور یقینی معلومات حاصل کیے بغیر اور نفس مسئلہ کی علمی وشرعی کماحقہ تحقیق کیے بغیر ہی انہیں کافر اور مشرک کہہ دیتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اس کی غیر ضروری تشہیر اور اعلان بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ تکفیر کا مسئلہ یعنی کسی کو کافر کہنا یا کسی کے کافر ہونے کا فتوی دینا، انتہائی حساس ترین مسئلہ ہے اور اس کے نتائج غیر معمولی اور دور رس ہوتے ہیں ۔ علمائے اسلاف نے اس کی باریکیوں کو خوب خوب واضح کیا ہے اور اس ضمن میں اسلامی تعلیمات، اصول اور شروط وآداب کو بخوبی بیان کیا ہے ۔ تکفیر کا مسئلہ بہت تحقیق طلب ہے اور غیر معمولی تدقیق وتمحیص کا متقاضی ہے۔ علماء اور مفتی حضرات کو چاہیے کہ کفر کا فتوی صادر کرنے سے پہلے پوری تحقیق کرلیں اور اس ضمن میں نصوص کتاب وسنت کو مستحضر رکھیں ۔ کفر اکبر، کفر اصغر، دونوں میں فرق اور دونوں کی قسمیں، اظہار کفر کے ذرائع ، کفر اکبر اور کفر اصغر کا انجام، اسی طرح تکفیر مطلق اور تکفیر معین، تکفیر معین کی شرطیں وغیرہ پر علماء و فقہاء نے جو کچھ نتائج تحقیق پیش کیا ہے اور جن شروط و آداب کا استنباط کیا ہے، انہیں لازماً ملحوظ رکھیں اور کفر کا فتویٰ دینے سے قبل سوبار سوچیں کہ تکفیر کا حق کسے حاصل ہے؟ کیا میں کسی کو کافر کہنے میں حق بجانب ہوں؟ یا اپنے دائرہ کار سے باہر جا رہا ہوں؟ ان اصولوں کو سامنے رکھیں تو شاید کفر کا فتویٰ دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ پیشِ نظر کتاب میں فاضل مصنف نے ان ہی اصول واساس کو انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ مسئلہ کی نزاکتوں ، کفر کا مفہوم اور کفر کی تقسیم وتفصیل کو بحسن وخوبی مرتب کیا ہے۔ آخر میں مفتی اور مستفتی کے آداب بھی بیان کیے ہیں۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ تکفیر کے مسئلہ میں علمائے اہل سنت نے حد درجہ احتیاط کیا ہے۔ غالباً قرامطہ کے علاوہ کسی معین فرقہ یا جماعت کو علماء نے کافر نہیں کہا ہے۔ پوری امت اس مسئلہ میں متفق نظر آتی ہے۔ صرف خوارج اور معتزلہ ہیں کہ جنہوں نےکفر اصغر کا ارتکاب کرنے والے مسلمانوں کو بھی خارج از ملت گردانا ہے اور ان کے اسلام کی نفی کی ہے جو بالکل ہی درست نہیں ہے اور صریح غلطی ہے۔ یہی غلطی آج بھی بعض علماء اور مفتی حضرات کر رہے ہیں۔ ص 50 پر فاضل مصنف لکھتے ہیں : کسی متعین اور مخصوص آدمی کی تکفیر یا دوسرے لفظوں میں اس کے خلاف کفر کا فتوی یا فیصلہ اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک کہ چند باتوں کی بطور شرط تحقیق نہ کرلی جائے ۔ یہ باتیں ہی دراصل تکفیر کی شرطیں ہیں، جن کا پورا ہونا بہر کیف ضروری ہے: 1۔ وہ متعین شخص عاقل اور بالغ ہو۔2۔ اس نے اپنے اختیار اور ارادہ سے کفر کیا ہو۔ 3۔ اس فرد تک دلیل شرعی پہنچ گئی ہو، مگر اس کے باوجود وہ کفر پر اڑا رہے۔4۔ اس کا کفر بر بنائے تاویل نہ ہو۔ یہی اس کتاب کا خلاصہ ہے اور سب سے قابل ذکر اقتباس ہے۔ جسے اگر ملحوظ خاطر رکھا جائے تو تکفیر کے مسئلہ میں افراط وتفریط سے بچا جاسکتاہے۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ ہر بات مدلل کہی گئی ہے اور نصوص کے حوالہ جات درج کیے گئے ہیں۔ فقہی اصولوں اور فقہاء کے اقوال و تشریحات کو بھی حوالوں کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ کفر اکبر کی قسمیں اس قدر عمدہ اسلوب میں بیان کی گئیں ہیں کہ پوراً مسئلہ قاری کے سامنے واضح ہوجاتا ہے۔ ص 68 پر اختتامیہ کے عنوان سے پوری کتاب کا خلاصہ درج کر دیا ہے جو سات نکات پر مشتمل ہے ۔ صاحب کتاب نے عربی مصادر سے استفادہ کیا ہے جس کی صاف جھلک کتاب میں دکھائی دیتی ہے۔سارے مندرجات علمی اسلوب میں ہی پیش کیا ہے۔ دوران مطالعہ جا بجا محسوس ہوا کہ کتاب میں تحریر کے بجائے خطابت کا اسلوب ابھرا ہوا ہے۔ نیز آیات قرآنی میں اعراب کی تکمیل وتصحیح کی کمی پائی گئی ۔ ص 69 میں کفر اصغر کی جگہ حکم اصغر ہے۔ ص 81 پہ میری کے بجائے میرے رائے ہے۔ ص 83 پر لوگ باگ میں باگ زائد ہے۔ ص 76 پر ضمیمہ نمبر 2 کے مندرجات مستفتی یعنی عام مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ اس مناسبت سے عام فہم اسلوب اختیار کیاجاتا تو بہتر ہوتا اور اختصار کے ساتھ دو دو باتیں درج کی جاسکتی تھیں۔ امید ہے آئندہ اشاعت میں ان کمیوں پر نظر ثانی کر لی جائے گی۔ غرض کہ کتاب اپنے موضوع پر انتہائی جامع اور بہت ہی مفید ہے۔ امید ہے کہ اہل علم اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے ۔ طلبہ و اساتذہ ، دینی جماعتوں کے ذمہ داران بالخصوص اصلاح اور دعوت کے میدان سے وابستہ افراد اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں گے۔ قوی امید ہے کہ فاضل مصنف کی سابقہ کتب کی طرح اس کتاب کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور ایک بڑا طبقہ اس علمی کاوش سے مستفید ہوگا۔ (ان شاء اللہ)