مفتی محمد اطہر شمسی
آج کل مدارس اسلامیہ کے ارباب حل و عقد پر مختلف قسم کے سوالات کی یلغار ہے۔ "کیا آپ کے یہاں جدید عصری علوم شامل نصاب ہیں؟”، "کیا آپ کے مدارس اپنے فارغین کو روزگار دلانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟” وغیرہ ۔سوالات کی یلغار کچھ اس طرح ہے کہ اہل مدارس کے لیے خود کا دفاع آسان نہیں رہ گیا ہے۔میرے نزدیک مدارس سے کیے جانے والے یہ سوال ثانوی درجہ کے ہیں بنیادی اہمیت کے حامل نہیں۔اس لیے کہ مدارس کا دعویٰ ہے کہ وہ خالص دینی، مذہبی ادارے ہیں۔دین کی حفاظت اور تبلیغ ان کا موضوع ہے۔سیکولر مضامین اور زندگی کے سیکولر شعبے اہل مدارس کے نزدیک ان کا موضوع ہی نہیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ جس چیز کو اہل مدارس نے کبھی اپنا موضوع ہی تصور نہ کیا ہو، اس کے بارے میں ان سے توقعات وابستہ کرنا کس حد تک درست ہے؟ لہٰذا مدارس سے کیے جانے والے اس نوعیت کے سوال میرے نزدیک اصل اہمیت سے خالی ہیں۔مدارس چونکہ خود کو ایک دینی ادارہ سمجھتے ہیں۔
لہٰذا ان سے کیے جانے والے سوالات دینی دائرہ سے متعلق ہونے چاہئیں۔مثلا اسوہ پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کا موضوع ہے۔اس نسبت سے غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں مسلمان ایک بے حد چھوٹی اور کمزور سی اقلیت تھے۔لیکن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی بصیرت اور دور اندیش پلاننگ کا استعمال کر کے اُنھیں نہ صرف اس کمزوری سے نکالا بلکہ آئندہ ربع صدی میں اُنھیں دنیا کی سب سے طاقتور قوم بنا دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور عظیم الشان پلاننگ کے نتیجہ میں یہی کمزور ترین مسلمان اگلے کچھ برسوں میں نصف دنیا کے مالک بن گئے۔مدارس چونکہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ادارے ہیں، لہٰذا اہل مدارس کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ بھی اُسوه رسول صلی اللّٰہ علیہ پر عمل کرتے ہوئے ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ کیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کی ایک با عزت اور خوش حال کمیونٹی بنانے میں کامیاب رہے ہیں؟ کیا وہ اسوہ رسول کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل حل کر سکے ہیں؟دنیا بھر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اپنے عروج پر ہے۔اسلام کو ایک خونخوار مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
مدارس اسلامیہ کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ اسلام کی اس بگڑتی امیج کو درست کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟ کیا وہ دنیا بھر میں اسلام کی شبیہ ایک دین امن و انسانیت کے طور پر قائم کر سکے ہیں؟ کیا وہ اسلام کے خلاف کیے جانے والے فکری پروپیگنڈے کا علمی اور سائنسی جواب دے کر عالمی فضا اسلام کے حق میں خوش گوار بناپائےہیں؟جدید تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں میں بڑھتی مذہب بیزاری اس وقت ملت کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔مسلم لڑکے اور لڑکیاں خود اپنے دین سے غیر مطمئن ہیں.مدارس اسلامیہ دين اسلام کے قلعے ہیں۔
اس لیے اُنھیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ مسلمانوں کی دین سے بیزار ہوتی نسل کو بچانے کے لیے کوئی اسٹریٹیجی تیار کر سکے ہیں۔ کیا اُنھوں نے ایسا کوئی لٹریچر تیار کیا ہے کہ جس کے بل پر نوجوانوں میں بڑھتے ملحدانہ رجحانات کو روکا جا سکے ؟قرآن کا سب سے زیادہ فوکس ایسے انسانوں کی تیاری پر ہے جو اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے متصف ہوں، ان کے اندر اونچا کردار زندہ ہو۔مدارس کو اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ان کے فارغین ان اعلیٰ اخلاقی اوصاف اور کردار کے حامل ہوتے ہیں؟ کیاوہ واقعی اعلیٰ درجہ کے انسان ہوتے ہیں؟کیا ان کا کردار دوسرے لوگوں کے مقابلہ زیادہ بلند ہوتا ہے؟ کیا ان کے اندر سنجیدگی دیانتداری، خیرخواہی، حق گوئی، انصاف پسندی جیسے اوصاف دوسرے لوگوں کے مقابلہ زیادہ ہوتے ہیں؟ قرآن خدا کا ایک اہم وصف حلم بتاتا ہے۔
اس کے ذریعہ مقصود یہ ہے کہ قرآن کے قاری میں اللہ کا یہ وصف منتقل ہو اور وہ حلم و برداشت والی شخصیت بنے۔ ارباب مدارس کو سوچنا ہوگا کہ کیا ان کے تیار کیے ہوئے پراڈکٹ میں برداشت کا مزاج دوسروں کے مقابلہ زیادہ ہوتا ہے؟ اہل ایمان کے بارےمیں قرآن کا بیان ہے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں۔اہل مدارس کو غور کرنا ہوگا کہ کیا ان کے تربیت یافتہ نوجوان سماج میں بھائی بھائی بن کر رہتے ہیں؟ کیا فارغین مدارس تمام اہل ایمان کے ساتھ برادرانہ رویہ اختیار کرتے ہیں؟ قرآن کا بیان ہے کہ اہل ایمان اپنی ضروریات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، بھلے ہی وہ خود تنگی میں کیوں نہ ہوں ؟ مدارس کو اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ان کے فارغین میں یہ قرآنی مزاج موجود ہوتا ہے ؟قرآن کی ایک اہم اور بنیادی تھیم سماجی انصاف ہے
اس حوالہ سے اہل مدارس کو اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ان کا نصاب ان کے فارغین میں سماجی انصاف کا شعور بیدار کرنے میں کامیاب ہے؟ کیا اس نصاب کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ملک کے کمزور اور پس ماندہ طبقات کو ان کے حقوق دلانے کے لیے سماجی انصاف کی کوئی تحریک کھڑی کر سکے ہیں؟ کیا ہمارے مدارس کے فارغین کی تربیت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ہر کمزور کے ساتھ عدل کر سکیں اور انصاف کی گواہی دے سکیں، خواہ یہ گواہی اپنے والدین اور رشتہِ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو؟ قرآن کی ایک نہایت اہم تھیم قوموں کا عروج و زوال ہے۔قرآن میں قوموں کے عروج و زوال کے قوانین نہایت تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔اس حوالہ سے مدارس اسلامیہ کو اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ان کے فارغین کو قرآن کے اس اہم مضمون کا شعور ہوتا ہے؟ کیا وہ اس بات کو گہرائی سے سمجھتے ہیں کہ قوموں کا عروج کیسے ہوتا ہے اور ان کے زوال کے اسباب کیا ہوتے ہیں ؟ قرآن ہمیں بار بار سوچنے کی دعوت دیتا اور ہمارے ذہنی جمود کو توڑتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مدارس کے فارغین کی تربیت یافتہ نسل ایک سوچنے والی نسل ہوتی ہے؟ کیا وہ ہر قسم کے ذہنی و فکری جمود سے خالی ہوتے ہیں؟ قرآن بے شمار مقامات پر تاریخ اِنسانی کے واقعات ذکر کرتا اور ان کے حوالے دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرکے قرآن اپنے قاری میں تاریخ کا گہرا شعور پیدا کرنا چاہتا ہے جو عبرت رخی ہو۔اہل مدارس کو غور کرنا ہوگا کہ کیا ان کا نصاب اپنے فارغین میں تاریخ کا گہرا شعور پیدا کرنے میں کامیاب ہے؟ اس سے بھی بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مدارس کا نصاب اپنے فارغین میں قرآن کا گہرا شعور بیدار کر سکا ہے؟ کیا تصورات قرآن کی تفہیم ہمارے مدارس کی ترجیحات میں شامل ہے؟ اہل مدارس کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ اپنے وقت اور توانائی کا سب سے بڑا حصہ قرآن کے تصورات کی تفہیم پر خرچ کر رہے ہیں؟
اہل مدارس کو غور کرنا ہوگا کہ کیا واقعی ان کے کیمپس میں سب سے زیادہ ہونے والی گفتگو کا موضوع قرآن اور قرآنی افکار و تصورات ہوتے ہیں یا پھر جزئی مسئلے مسائل اور اختلافی نوعیت کے دیگر موضوعات ؟ قرآن میں کہا گیا ہے کہ تم زمین میں سیاحت کرو اور سبق حاصل کرو(الانعام:11) ۔اہل مدارس کو سوچنا ہوگا کہ کیا ان کا نصاب و نظام تعلیم اپنے طلبہ میں یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ دنیا کے مختلف ملکوں ، تہذیبوں ،علاقوں ، قوموں کا سفر کرکے اُنھیں سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے شعور کو بلند کریں ؟
یہ وہ سوال ہیں جن پر ہمارے مدارس اسلامیہ کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور یہی وہ سوال ہیں جو ہمارے دانشور طبقہ کو بھی مدارس کے ساتھ ڈسکس کرنے چاہئیں۔ بہ الفاظ دیگر دینی ادارے ہونے کی حیثیت سے مدارس کا اصل کام اپنے طلبہ میں قرآنی شخصیت کی تعمیر ہے ۔ان کی کامیابی اور ناکامی اس سوال کے جواب سے طے کی جائے گی کہ کیا مدارس اسلامیہ اپنے طلبہ میں ایک قرآنی شخصیت پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟مدارس سے متعلق اصل اور بنیادی سوال یہی ہے۔
اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو مدارس اسلامیہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمارے نزدیک مدراس کو اپنے نصاب اور نظام پر از سرنو غور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔اس میں تاخیر قرآنی شخصیت کی تعمیر میں تاخیر کے ہم معنی ہوگی۔ تاہم سوال کرنے اور افہام و تفہیم کا یہ تمام عمل مدارس اسلامیہ کی عظیم خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، اہل مدارس کے آخری درجہ کے احترام کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔جو لوگ اہل مدارس کے احترام اور ان کی خیر خواہی کے جذبہ سے خالی ہوں، اُنھیں چاہیے کہ وہ ہر قسم کے سوال جواب اور ڈسکشن سے دور رہیں۔
(مضمون نگار القرآن اکیڈمی،کیرانہ کے ڈائریکٹر ہیں )