تحریر : اشرف علی بستوی
کہاں ہیں اشرف صاحب ‘اسپین میگزین کا شمارہ آگیا ہے ، آج شام گڈو چائے والے کے یہاں ملاقات ہونی چاہیے،ان شاءاللہ ،عشاء بعد ملیں ۔ سالک داھام پوری صاحب سے میری یہ ٹیلیفونک گفتگو رمضان سے ٹھیک قبل ہوئی تھی، لیکن ملاقات میں دیر ہوتی چلی گئی اورہم 9 اپریل کی شام گڈو ٹی اسٹال پر جب ملے تو چھوٹتے ہی اپنے خاص اندازمیں جناب نے ہماری خبر لی ، بولے ’ آج کل آپ بہت مصروف ہوگئے ہیں ، بھئی ہماری تو یہی دعا ہے کہ کام کے تعلق سے آپ اور مصروف رہیں ، بہت دنوں بعد ملے ہیں آئیے پہلے ایک ایک کپ چائے اور ہو جائے ، اتنے میں اور کئی ساتھی آدھمکے پھرمجلس جمی، آج پھر اردو مشاعرے اور اردو والے موضوع سخن رہے ۔ آج پھر مجھے ذرا جلدی نکلنا تھا اس لیے میں نے معذرت چاہا ،جناب نے چلتے ہوئے تاکید کی کہ اپنا رسالہ کل یہیں گڈو کے یہاں سے ہی لے لیجیے گا ۔‘
آج شام جب میں گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو ان کے انتقال کے اطلاع والے وہاٹس ایپ میسیج نے نڈھال کردیا، ان سے پہلی ملاقات کا وہ سارا منظر اور ان کے ساتھ گزارے لمحات آ نکھوں کے سامنے تیرنے لگ گئے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے سالک دھام پوری صاحب سے میری پہلی ملاقات بتوسط مراسلہ2002 میں ہی ہوگئی تھی ، پہلی بار ہم یہیں راشٹریہ سہارا اردو مراسلات کے کالم میں ملے، جناب ملی و ملکی معاملات پر بہت بے باکی سے لکھتے تھے اور ہم نے بس ابھی تازہ تازہ مراسلہ نگاری شروع کی تھی ۔ عام طور پراپنے گرد وپیش کے واقعات ، سرکاری شعبوں کی لاپروائی کے سبب عام زندگی کی مشکلات ہمارا موضوع ہوتے۔ تب جب روزنامہ راشٹریہ سہارا کے صرف تین ایڈیشن ہوا کرتے تھے دہلی ، لکھنؤ اور گورکھپور، ایک مراسلہ بھیجنے کے بعد ہفتوں انتظار کے بعد جب اپنا نمبر آتا تب تک ہر روز مراسلات کاکالم اپنا محبوب گوشہ ہوتا، جس کا مطالعہ پابندی سے کیا کرتے ۔ انہی کالموں میں سالک صاحب سے اکثر ملاقات ہوجاتی ۔
ملاقات ایسےقلم کار سے جس نے اخبار میں پہلا مراسلہ16 برس کی عمر میں اپنی ہی بیکری کے خلاف لکھا تھا۔
باقاعدہ ملاقات ستمبر 2006 میں سہ روزہ دعوت جوائن کرنے کے بعد ابوالفضل واقع دعوت دفتر میں ہوئی ، کیمپس سے گزرتے وقت وہ اکثر دعوت اور کانتی لینے آجایا کرتے ۔ میری ٹیبل دو سینئر حضرات مولانا عقیدت اللہ قاسمی اور صبغت اللہ ندوی صاحب کے درمیان ہوتی تھی۔ ایک دن اسی میز پر جناب سے تعارف ہوا اور پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ چل پڑا ۔ آگے چل کر یہ تعلق دوستی میں تبدیل ہوگیا جب 2017 میں ہم ابوالفضل انکلیو ای- بلاک میں ان کے پڑوسی ہوئے۔ اب بلا ناغہ گڈو کی چائے کی دوکان پر عشاء بعد کی ملاقاتوں کا دور شروع ہوا ، مقامی ادیبوں اور شاعروں کی بزم آراستہ ہونے لگی پھر یہیں سے ’بزم احباب‘ کا خیال بنا اورسالک صاحب نے ’بزم احباب‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ ہر ماہ نشستوں کا سلسلہ شروع ہواجس میں شرکت یقیناً فرحت کا سامان ہوتی ،میری ہر ممکن کوشش ہوتی کہ ضرور شامل رہوں لیکن بد قسمتی سے گزشتہ ماہ کی محفل میں پہنچ نہ سکا جس کا قلق ہمیشہ رہے گا ۔
وقت گزرنےساتھ ساتھ تعلق بڑھتا گیا، وہ اکثرمجھے اپنے گھر بلاتے اوراپنی تحریریں ،جیل ڈائری اور کئی غیر مطبوعہ مسودے دکھاتے اور پڑھنے کو دیتے ،مشورے طلب کرتے، خوش ہوتے ۔ اسی طرح دو سال قبل ایک روز انہوں نےگھر بلایا اور اپنا البم پیش کیا ایک ایک تصویر پر بات کی،کچھ پرانی تحریریں اور کتابیں دکھائیں، یہ دیکھتے ہوئے مجھے خیال گزرا کہ درخواست کروں کہ ان کے تصویری البم کو اپنے کیمرے میں محفوظ کر لوں وہ خوش ہوگئے اور مجھے اجازت دے دی ، پھر اگلے ہی پل مجھے خیال گزرا کہ اردو کے اس خاموش خادم کے پاس کوئی بڑا کیمرہ اور ٹرائی پوڈ تو آنے سے رہا اس لیے کیوں نا میں ہی اپنے محدود وسائل میں ہی سہی ان کی گراں قدر خدمات کا ویزوئل ریکارڈ بنالوں ۔ اس طرح نصف گھنٹے کا ایک انٹرویو ایشیا ٹائمز پر دو سال قبل براڈ کاسٹ کیا ، اور آج جب ان کے انتقال پر گوگل پر جب سالک صاحب کی تصویریں سرچ کی جانے لگیں تو ایشیا ٹائمز کے ویب لنک لوگوں کے کام آئے ۔
بے باکی سالک صاحب کا سرمایہ تھی جسے انہوں نے اول روز سے سنبھالے رکھا ، 16 برس کی عمر جو پہلا مراسلہ بعنوان ‘ یہ بیکری والے ‘ اردو ٹائمز ممبئی میں شائع ہوا تھا وہ خود ان کے گھریلو کاروبار کے خلاف تھا ان کے والد بیکری کا ہی کاروبار کرتے تھے ، بیکری والوں کی طرف سے آٹے کی کالابازاری کے خلاف اور افاد عامہ میں مراسلہ لکھ ڈالا ۔ ان کی تحریر کی یہ دھار وقت اور حالات کے تھپیڑوں سے کند نہ ہوئی بلکہ مزید تیز تر ہوتی چلی گئی، جس کا انہیں وقتی نقصان بھی ہوا لیکن وہ اپنی بات کہنے میں کبھی مصلحت کا شکار نہ ہوئے ۔
سالک صاحب دوستوں کے دوست تھے ان کے دوستوں کی فہرست میں 18 برس سے لیکر 80 برس کے افراد کی طویل فہرست تھی ناچیز کو بھی اس فہرست میں جگہ حاصل تھی ، ہمیشہ خوش رہنا اور محفل کو قہقہ زار بنائے رکھنے کے فن سے خوب واقف تھے سالک صاحب ۔ ان کی محفل میں کب کیا موضوع ہوگا اور کون آج موضوع سخن ہوگا یہ وہ خود طے کرتے اور پھر محفل کے دیگر شرکاء صرف اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے جاتے۔ اکثر ایک واقعہ سناتے اور خوب قہقہ لگاتے بتاتےکہ ایک محفل میں ایک نوجوان میرا تعارف کراتے ہوئے بولا ، سالک صاحب میرے نانا کے دوست تھے ، پھر میرے مامو جان کے دوست ہوئے اور اب میرے دوست ہیں، سننے والے نے چھوٹتے ہی کہا اوراب یہ تیرے بیٹے کے دوست ہوں گے، یہ کہہ کر خوب ہنستے ۔
انہوں نے کہانی ،افسانہ ، ناول ، طنز و مزاح ، انشائیہ ںظم ،غزل لگ بھگ سبھی اصناف پر طبع آزمائی کی 27 کتابوں کے مصنف ہوئے ،بلا مبالغہ ہزاروں مراسلے تحریر کیے ، تین سو سے زائد کتابوں کا ترجمہ کیا ، نسیم حجازی کے سبھی ناولوں کا ہندی میں ترجمہ کیا اور ابھی کئی مسودے زیر ترتیب تھے جن پر اکثر بات ہوتی اور کافی پر امید تھے ، کہتے خدا کا شکر ہے لاک ڈاون ختم ہوگیا ہے اب بہت جلد کچھ اور کتابیں منظر عام پر آجائیں گیں ۔ ناول ’میڈیم انجیلا‘ جو زیر ترتیب تھا ایک دن چائے کی میز پر گفتگو کی اور اس پر مجھے مقدمہ لکھنے کا حکم صادر کردیا ، میں نے لاکھ کہا کہ میں آپ کی تحریروں پر لکھنے کا اہل نہیں ہوں لیکن انہوں نے ایک نہ سنی ، خیر حکم کی تعمیل میں اپنی تمام تر بے ہنگم مصروفیات سے وقت نکال کر لکھنے کی کوشش کی اورجب پیش کیا تو بہت خوش ہوئے، دعا ئیں دیں ۔
سالک صاحب کی تحریریں انتہائی سادہ اور آسان اور پاکیزہ زبان میں ہوتیں، ناول ’میڈیم انجیلا‘ میں رومانی منظر پیش کرتے وقت بھی حیا اور پاکیزگی کا دامن نہیں چھوڑا ، چونکہ بنیاد میں تحریک اسلامی کی تربیت شامل تھی اس لیے کبھی کوئی تحریر بے مقصد نہیں لکھی ، پرانی سے پرانی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کا سلیقہ ان سے سیکھا جا سکتا تھا۔ پسماندگان میں ورثہ کے علاوہ ایک اچھی خاصی لائبریری بھی ہے جس میں بیش قمیتی نسخے ہیں ۔ آج ان کو یاد کرتے ہوئے لکھی گئی میری یہ تحریر سالک صاحب سے میرے ذاتی تعلق کا مختصردستاویز ہے ، گزشتہ 14 برس میں ان سے میرے رابطے رہے ہیں اسی روداد و تاثرات کو درج کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے ۔ اردو کا یہ خاموش خادم 11 اپریل کی شام اس درافانی سے کوش کر گیا، خداو وند کریم سے التجا ہے کہ مرحوم کے ساتھ رحم کا کرم کا عافیت کا معاملہ کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ، اور پسماندگان کو صبتر جمیل عطا کرے۔ آمین !
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)