تہران (ڈی ڈبلیو)ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ حکام کو پولیس حراست میں ایک نوجوان کرد خاتون کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں شروع ہونے والے مظاہروں سے ‘فیصلہ کن طور پر نمٹنا’ چاہیے۔ایران میں کئی برسوں بعد اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے سب سے پہلے گزشتہ ہفتے 22 سالہ مہسا امینی کے جنازے کے موقع پر شروع ہوئے تھے، جن کے بارے میں مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہیں خواتین پر حجاب کے قوانین نافذ کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس نے قتل کیا تھا۔رئیسی نے ہفتے کے روز کہا کہ ایران کو ’’ایسے لوگوں کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹنا چاہیے جو ملکی سلامتی اور امن کے خلاف سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہیں۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق رئیسی نے یہ بات مبینہ طور پر مظاہرین کے ہاتھوں مارے جانے والے ایک اہلکار کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر رئیسی نے ’عمومی‘ مظاہروں کی اہمیت پر زور دیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’فسادات‘ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔زیادہ تر حالیہ مظاہروں کی قیادت ایرانی خواتین کر رہی ہیں تاہم انہیں مردوں کی حمایت بھی حاصل ہے
۔مظاہرین کا ملکی پولیس پر الزام ہے کہ انہوں نے حجاب کے قانون کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتاری کے بعد امینی پر تشدد کیا تھا، جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے غیر ملکی دشمن اور ایرانی جلاوطن گروہ ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ مظاہروں میں 35 افراد ہلاک ہوئے ہیں تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کم از کم 50 ہے۔اس سے قبل 2019 میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ حکومت نے ان مظاہروں کو سختی سے کچل دیا تھا جس میں تقریبا 1500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔