نئی دہلی : (ایجنسی)
دہلی فسادکیس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک سال گزر چکا ہے۔ اس سے قبل بھی عمر جیل کا منھ دیکھ چکے ہیں جب جے این یو میں ’ ملک مخالف نعرے‘ کے معاملے میں ان پر اور کنہیا کمار پر مبینہ ملوت ہونے کا الزام لگایا تھا ۔
عمر خالد پر دہلی پولیس نے 6 مارچ 2020 کو ایک ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس ایف آئی آر میں عمر خالد پر سنگین الزامات ہیں، اس میں لوگوں کو جمع کرنا، فساد بھڑکانے سے پہلے منصوبہ سازی ، اشتعال انگیز بیان دینا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران لوگوں کو سڑک پر مظاہرے کرنے کےلیے اکسانا شامل ہیں۔
حالانکہ عمر خالد کے حامی ان کے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل ہے کہ عمر کو جیل میں رکھنے کے پیچھے پولیس کے پاس کافی حقائق اور استدلال نہیں ہیں۔
3 ستمبر کو دہلی فساد معاملے میں عمر خالد کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔ کڑکڑڈوما کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران اپنی دلائل پیش کرتے ہوئے عمر خالد کے وکیل تردیپ پائس نے دہلی پولیس کے دعوؤں کو مسترد کردیا تھا۔
تردیپ نے کہا تھا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ ( سی اے اے ) کے خلاف کسی ایک کمیونٹی نے احتجاج نہیں کیا تھا، بلکہ پورے ملک میں احتجاج ہوئے تھے۔ دہلی پولیس نے جو چارج شیٹ دائر کی ہے ، اس میں کسی کرائم کی بات ہی نہیں کی گئی ہے ۔
دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 14 ستمبر 2014 کو عمر خالد کو گرفتار کرلیا تھا۔ پولیس نے عمر خالد کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا، جس کے بعد اسپیشل سیل کے دفتر میں رات 11 بجے سے ایک بجے تک تفتیش کی گئی اور عمر خالد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ تب سے اب تک ایک سال ہوگیا اور عمر خالد لگاتار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے ۔
یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار عمر خالد کا ذکر دہلی پولیس نے فساد پر کورٹ میں پیش کی اپنی ایڈیشنل چارج شیٹ میں بھی کیا تھا۔ دہلی فساد کیس میں گرفتار کی گئی ’ پنجرا توڑ‘ کی 3 خاتون ممبران نے عمر خالد کا نام لیا تھا ۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ’پنجرا توڑ‘ کی 3 طالبات دیوانگنا کلیتا ، نتاشا ناروال اور گلفشا فاطمہ کے مطابق عمر خالد نے انہیں فساد کے لیے اکسایا اور بھیڑ کو متحد کرنے کا کام کیا تھا۔ اس اہم قبول نامے کے بعد دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے عمر خالد کو سمن بھیج کر تفتیش کے لیے طلب کیا تھا ۔
دہلی تشدد پر گھنٹوں پوچھ گچھ کے بعد دہلی پولیس کا شک پختہ ہو چکا تھا اور اسے فوراً گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس کی جانکاری عمر خالد کے والد سید قاسم رسول الیاس کو بھی ٹویٹ کرکے دی گئی تھی ۔
عمر خالد اور کچھ دیگر کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان پر فروری 2020 میں ہوئے فسادات کی سازش کا الزام ہے۔ ان فسادات میں 53 افراد جاں بحق جبکہ 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔