نئ دہلی ،لوک سبھا کی سابق اسپیکر میرا کمار نے نے جمعہ کو کو یہاں ایک پرو گرام کے دوران اپنے دل کا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کے بھارت میں بھی ذات پات کا سسٹم قائم ہے ۔ملک میں دو طرح کے ہندو ہیں ایک جو مندر جاسکتے ہیں دوسرے وہ جو مندر نہیں جا سکتے۔انہوں نے انکشاف کیا کیا کہ بہت سے لوگوں نے ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاؤ کے چلتے ان کے والد بابو جگ جیون رام سے ہندو دھرم چھوڑنے کے لئے کہا تھا کیونکہ ان کو اکثر نسلی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ۔ان کا جواب ہوتا کہ وہ مذہب تو نہیں چھوڑیں گے مگر اس سسٹم کے خلاف لڑیں گے کیونکہ مذہب بدلنے سے ذات کا ٹھپہ ختم نہیں ہوتا۔
راجندر بھون میں منعقد اس پروگرام میں کانگریس لیڈر جے رام رمیش کی ایک کتاب کا اجرا ہوا ۔میرا کمار نے کہا کہ ہم ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں ہمارے پاس چمچماتی سڑکیں ہیں بہت سے لوگ ان پر چلتے ہیں ہیں وہ آج بھی کا سٹ سسٹم سے متاثر ہیں سوال یہ ہے کہ ہمارا ذہن کب چمکے گا ہم کب اپنی اپنی ذات پر مبنی ذہنیت کے خول سے باہر آئیں گے؟میرا کمار نے نے بتایا کہ مندر جاتے وقت پجاریوں نے اکثر ان کا گوتر پو چھا ۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہماری سنسکرتی تکثیری ہے۔ ہم سب اپنی زندگی میں میں مختلف مذاہب سے اچھی باتیں سیکھتے ہیں.
جے رام رمیش میں نے اس موقع پر گوتم بدھ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بدھ نے’ برہمن وادی قدامت پسندی’ کو چیلنج کیا تھا اور کئ سوشل ریفارمرس نے ان کے اس رنگ کو دیکھا جو انقلابی ہے ، جبکہ ایک نظریہ نے ان کا صرف روحانی پہلو دیکھا۔انہوں نے الزام لگایا کہ ہندوؤں نے نے اپنے مفاد کے لیے’ بدھ دھرم کو ہڑپ لیا’ تھا.