عارضی اعداد و شمار کے مطابق صرف 11.3 فیصد ووٹ پڑے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان انتخابات کو صدر قیس کی حکمرانی اور ملک کی جمہوریت کے لیے ایک امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تیونس میں 29 جنوری اتوار کے روز پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور اطلاعات کے مطابق بیشتر ووٹرز نے پولنگ کو مسترد کر دیا۔ عارضی طور پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق صرف 11.3 فیصد ووٹر ہی پولنگ بوتھ تک پہنچے۔ دسمبر 2022 میں منعقد ہونے والے پہلے مرحلے کے انتخابات میں بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں ووٹ پڑے تھےانتخابات کو ملک کے صدر قیس سعید کی جانب سے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش اور ایک امتحان کے طور پر دیکھا جا رہاتھا۔ لیکن اتنی کم تعداد میں ووٹ پڑنے کی وجہ سے اب انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ گیا
ملک میں سیاسی طور پر سب سے با اثر اسلامی جماعت النہضہ ہے، جس نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اسی کی قیادت والی پارلیمان کو صدر قیس سعید نے پہلے سن 2021 میں معطل کر دیا تھا اور پھر بعد میں اسے ختم کر دیا گیاصدر سعید نے مقننہ کی طاقت کو کم کرنے اور خود کو مزید بااختیار اور سیاسی طور پر طاقتور بنانے کے لیے ملک کے آئین میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔حالیہ برسوں میں صدر قیس سعید کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، کیونکہ تیونس کے باشندے معاشی بحران کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور ضروری اشیا کی کمی شہریوں کو درپیش سب سے اہم مسائل ہیں۔۔ (سورس ڈی ڈبلیو)