تحریر :افتخار گیلانی ( یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)
دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں بس دو سال میں 100 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو 2021-22 میں 10.70 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ 2020-21 میں یہ صرف 5 بلین ڈالر تھی۔ہندوستانی کمپنیوں نے ترکیہ میں تقریباً 126 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ترک صحافی فہیم تسٹیکن کے مطابق، اروان اپنی تیسری صدارتی مدت کے دورا ن زنگیزور کاریڈور کے منصوبے پر تیزی سے کام کریں گے۔ ترکیہ کا یہ منصوبہ ایک طرح سے چین کے بی آرٹی کاریڈور کی طرح نیٹ ورک پروجیکٹ ہے۔ نقل و حمل کا راستہ ترکیہ کو آذربائیجان سے براہ راست منسلک کرے گا۔ یہ راہداری ترکیہ کو بحیرہ کیسپین تک رسائی فراہم کرے گی اور وسطی ایشیا میں ترک ریاستوں کے ساتھ ایک راہداری دے گی۔ترک ریاستوں تک پہنچنے کے لیے ترکیہ کے پاس براہ راست راہداری کی سہولیت میسر نہیں ہے۔ جہاں فلسطین کو چھوڑ کر دیگر عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، ترک ممالک میں سے بیشتر داغستان، تاتارستان، بشخورستان تو روس کے قبضہ میں وہیں سنکیانگ چینی قبضہ میں ہے۔
وسط ایشیاء کی ترک ریاستوں قزاخستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغیزستان تک بھی اس کی رسائی نہیں ہے۔ اگر یہ راہداری بن جاتی ہے تو ترک دنیا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو جائےگی۔ مگر اس راہداری کے لیے لازم ہے کہ ترکیہ کے تعلقات روس اور ایران کے ساتھ خوشگوار رہیں۔ اس راہداری کے ذریعے ردوان ترک دنیا کو متحد کرنے اور دوبارہ رابط استوار کرنے کی وجہ سے تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مغرب کے لیے یہ انتخابات ایک اہم سبق ہیں۔ نہ صرف ان کی بے جا مداخلت نے ترکیہ میں قوم پرست جذبات کو ابھارابلکہ بیرون ملک ترکوں کے ووٹنگ کے انداز سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیم، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ہالینڈ یعنی جو ممالک اسلامو فوبیا کا شکار ہیں، میں اردوان کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔
اس کے برعکس برطانیہ، امریکہ، نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں جہاں اسلاموفوبیا کے کم واقعات رونما ہوتے ہیں، کلیچ داراولو کو اکثریت ملی۔ کہتے ہیں570سال قبل ترکو ں کے ذریعے استنبول یا قسطنطنیہ کی فتح رومن سلطنت کے زوال کا سبب تو بن گئی، مگر اس نے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک کو مہمیز دی۔
کیا اردوان کی 2023فتح ایک بار پھر یورپ اور دیگر مغربی طاقتوں کو ایک نئی نشاۃثانیہ کی تحریک برپا کرنے پر مجبور کردےگی، جس میں برابری اور برادری کے اصولوں کو اپناکر، سیکولر ازم کی ازسر نو تشریح کے ساتھ ساتھ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کے خاتمہ پر زور دیا جائے۔