متھرا :
اترپردیش پولیس ویسے ہی پورے ملک میں اپنی بعض خصوصیات مثلاً فرضی انکائونٹر’ٹھا ٹھاٹھا‘ وغیرہ کی وجہ سے سرخیاں بٹورتی رہتی ہے، لیکن متھرا سانحہ میں بین الاقوامی سازش تلاش کرنا اور کیرل کے صحافی صدیق کپن کو جو رپورٹنگ کے لئے گئے تھے یواے پی اے کے تحت گرفتار کرنا اس کے کام کاج کے اسٹائل کا ایک عجیب نمونہ ہے۔ مگر اس نے غیرانسانی رویہ کی تمام حدیں پار کردیں ہیں، صدیق کپن جیل میں کورونا پازیٹو ہوگئے تو ان کو علاج کے لئے متھرا کے اسپتال میں داخل کیاگیا،مگر وہاں ان کو’ فرض شناس‘ پولیس اہلکاروں نے پلنگ کے ساتھ باندھ کر رکھاہے۔ معروف سماجی تنظیم اورانسانی حقوق کے لئے سرگرم یونائٹیڈ اگنیسٹ ہیٹ کے کنوینر واثق ندیم نے فیس بک پوسٹ میں یہ رونگٹے کھڑے کردینے والی اطلاع دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تین دن سے نہ تو کچھ کھانا دیاگیا ہے اور نہ ہی ٹوائلٹ جانے دیاگیا۔ کسی شخص کی اس سے زیادہ بے رحمی سے جان لی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس رویہ کے خلاف جو ہر سوخاموشی چھائی ہوئی ہے ہم آٹھ اوربیس رکعتوں کے واجب ہونےوالے دلائل سے ایک دوسرے کا سرپھوڑ رہے ہیں۔ ہماری زبان پر تالے،ذہن پر تالے،ہاتھ میں خوف کی ہتھکڑی اور پیروں میں مصلحت کی بیڑیاں ہیں، یعنی ایمان کے اعلیٰ ترین اور کمزور ترین درجے سے بھی محروم۔
ایک سکون دینے والی خبر یہ ہے کہ گیارہ ممبران پارلیمنٹ نے چیف جسٹس آف انڈیا کوخط لکھ کر صدیق کپن کو مناسب علاج اور دیکھ بھال کی اپیل کی ہے وہیںکیرل کے وزیراعلیٰ نے بھی اس سلسلے میں اپنے یوپی کےہم منصب یوگی آدتیہ ناتھ کو خط لکھ کربہتر علاج کی درخواست کی ہے۔سرکردہ سماجی کارکن ابوالاعلی سیدسجانی نے اپنی فیس بک پوسٹ پر یہ معلومات دی۔
دوسری جانب کیرل کے صحافی صدیق کپن کی بیوی ریہانتھ کپن کی جانب سے ان کے وکیل نے نئے چیف جسٹس این وی رمنا کو خط لکھ کر کپن کو متھرا میڈیکل کالج سے فوراً رہا کرکے متھرا جیل بھیجنے کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ صدیق کپن کورونا پازیٹو پائے گئے تھے اور ان کی حالت بے حد نازک ہے۔صحافی کی بیوی نے دعویٰ کیا ہے کہ کپن کو متھرا کےمیڈیکل کالج اینڈہاسپٹل میں’جانور کی طرح کھاٹ سے باندھا گیا ہے وہ نہ تو کھانا کھا پا رہے ہیں اور نہ ہی پچھلےچار دنوں سے بھی زیادہ عرصے سے ٹوائلٹ جا سکے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ اگرفوراًکوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے تو ان کی بے وقت موت ہو سکتی ہے۔
بتا دیں کہ کپن کو پچھلے سال پانچ اکتوبر کو ہاتھرس جاتے وقت گرفتار کیا گیا تھا۔ ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی سے چار لوگوں نے مبینہ طور پر ریپ کیا تھا اور علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی تھی۔ پولیس نے تب کہا تھا کہ اس نے چار لوگوں کو متھرا میں شدت پسند تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی)کے ساتھ مبینہ رشتہ کےالزام میں گرفتار کیا اور چاروں کی پہچان کیرل کے ملپرم کے صدیق کپن، اتر پردیش کے مظفرنگر کے عتیق الر حمٰن، بہرائچ کے مسعود احمد اور رام پور کے محمد عالم کے طور پر ہوئی ہے۔ان کے خلاف مانٹ تھانے میں آئی پی سی کی دفعہ124اے (سیڈیشن)، 153اے (دو کمیونٹی کے بیچ دشمنی بڑھانے)، 295اے (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے)، یواے پی اے کی دفعہ65 72 اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ76 کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔اتر پردیش سرکار نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کر کےدعویٰ کیا ہے کہ صدیق کپن صحافی نہیں ہیں، بلکہ شدت پسندتنظیم پی ایف آئی کے ممبر ہیں۔یوپی سرکار کا کہنا ہے کہ کپن صحافت کی آڑ میں نسلی کشیدگی پیدا کرنے اورنظم ونسق بگاڑنے کی منصوبہ بند ارادے کے تحت ہاتھرس جا رہے تھے۔لائیولاء کے مطابق کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نے گزشتہ20 اپریل کو سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر مانگ کی ہے کہ کپن کی موجودہ صحت کو دھیان میں رکھتے ہوئے انہیں دہلی کے ایمس میں ٹرانسفر کیا جائے۔انہوں نے کہا ہے کہ کپن باتھ روم میں گر پڑے تھے، جس کی وجہ سے انہیں شدید چوٹیں آئی ہیں اور بعد میں وہ کووڈ 19پازیٹو پائے گئے تھے۔خط میں کہا گیا ہے کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پچھلے سال 6 اکتوبر 2020 کو دائر عرضی کو سات بار لسٹ کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک انہیں رہا کرنے پر سماعت نہیں ہوئی اور یہ زیر التوا ہی ہے۔ان باتوں کونوٹس میں لیتے ہوئے صدیق کپن کی بیوی نے مانگ کی ہے کہ انہیں فوراًمتھرا اسپتال سے نکال کر متھرا جیل میں ٹرانسفر کیا جائے۔