نئی دہلی(سید خلیق احمد)
|
پرائیویٹ سیکٹر سے ٹیلنٹ لانے کے بہانے مرکزی حکومت نے سرکاری محکموں میں لیٹرل انٹری شروع کر دی ہے۔ اس اسکیم کو شروع کرنے کے بعد نریندر مودی حکومت قومی اور ریاستی سطح پر سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں ’سویم سیوکوں‘ کو بھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسکیم کے تحت تعلیمی اور تعلیم سے وابستہ کاموں کی ذمہ داری نجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت لوگوں کو دی جا رہی ہے اوراسکول ڈیولپمنٹ کے لیے اسپانسر شپ حاصل کرنے کے لیے نجی لوگوںاور تنظیموں کو جوڑا جا رہا ہے ۔
اسکولی تعلیم میں بہتری اور مضبوطی کو مدنظر رکھتے ہوئے، پہلی نظر میں یہ منصوبہ بہت سود مند معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ماہرین تعلیم، اکیڈمک اور دانشور مودی حکومت کے ساتھ اپنے ماضی کے تجربے کی بنیاد پر اس اسکیم پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
چونکہ سویم سیوکوںاور کفیلوں کو منتخب کرنے کا واحد حق اسکول کے عہدیداروں کے پاس ہوگا۔ بالآحر لبرل ماہرین تعلیم کو شبہ ہے کہ ایک خاص نظریے کے لوگوں کی سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں بھر مار ہو سکتی ہے۔
ان دانشوروں کا خیال ہے کہ اس اسکیم کے تحت لائے جانے والے سویم سیوک اسکولی طلباء اور نو عمر بچوں کے دماغ کو پروپیگنڈہ سے متاثر سیاست اور مذہبی نظریات سے بھر دیں گے جس سے ملک میں اکثریتی بنیاد پرستی اور مذہبی شدت پسند و مذہبی جنونیت کو مزید تقویت ملے گی
ودیانجلی کے تحت سویم سیوکوں کے ساتھ وابستگی ختم کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے اگر وہ سویم سیوک کسی بھی ’تفرقہ یا دوسرے نظریات کو فروغ دینے میں شامل پائے جاتے ہیں جو نوجوان (اسکول کے طلباء) کے ذہنوں کے لیے ناسازگار ہیں‘، یا وہ ’ سیکورٹی اور راز داری ( جسمانی ،جذباتی ،سماجی ،صحت سے متعلقاور سائبرکرائم) کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
لیکن کیا ہوگا اگر اسکول کے پرنسپل اورسویم سیوک ایک ہی نظریے کے حامل ہوں اور اسکول کے حکام تفرقہ انگیز اور نفرت انگیز نظریات کو فروغ دینے پر اعتراض نہ کریں؟ اور یہ بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کس طرح حکمران جماعت کے دباؤ میں پورے ملک میں حکومتی ادارے دن رات آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
ماہرین تعلیم یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ مرکزی حکومت کی طرف سے اسکولی تعلیم کے لیے حکومت کی ذمہ داری کو بتدریج کم کرنے اور اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے کی چال ہے۔ ان ماہرین تعلیم کے دلائل معنی خیز ہیں کیونکہ مودی حکومت آہستہ آہستہ پبلک سیکٹر کے اداروں کو نجی گروپوں کی طرف منتقل کر رہی ہے۔ سویم سیوکوں کے ذریعہ تدریسی اور غیر تدریسی کام فراہم کرنے والی اس اسکیم کے بعد حکومت کو موجودہ اساتذہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خالی جگہوں پر نئے اساتذہ کی تقرری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
گزشتہ تین سالوں سے تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں، تعلیم کا کل بجٹ 2020-21 میں 99,311 کروڑ روپے سے گھٹ کر 2021-22 میں 93,224 کروڑ روپے رہ گیا ہے۔ یعنی چھ فیصد کی کمی تھی۔ مودی حکومت نے اسکولی تعلیم کے لیے مختص رقم میں بھی 5,000 کروڑ روپے کی کٹوتی کی ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی 38,350 کروڑ روپے سے 1000 کروڑ روپے کی کٹوتی کی ہے۔
ریزروڈ طبقے کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ اقدام دلتوں اور دیگر طبقات کے لیے ریزرویشن ختم کرنے کی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، سرکاری اور امداد یافتہ اسکول ریزروڈ کمیونٹی کے لوگوں کے لیے سب سے بڑے روزگار فراہم کرنے والے اداروں میں سے ایک ہیں۔
حالانکہ،’سویم سیوکوں‘کی بھرتی اعزازی بنیادوں پر ودیانجلی پروجیکٹ میں دی گئی دفعات کے مطابق کی جاتی ہے۔ جن اسکولوں کے لیے وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ان کے ذریعے ’سویم سیوکوں‘ کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔
لیکن ‘سویم سیوکوں ‘ ہمیشہ کارپوریٹ گھرانوں سے انفرادی کفالت حاصل کر سکتے ہیں اور کارپوریٹ سماجی ذمہ داری ( سی ایس آر) پروجیکٹ کے تحت صنعتی گھرانوں سے تنخواہ حاصل کر سکتے ہیں۔ کارپوریٹ گروپ بڑے پیمانے پر سرمایہ لگا کر ہزاروں اسکولوں کوا سپانسر کر سکتے ہیں۔ سویم سیوک اپنے رابطوں کی مدد سےاین آر آئی اور پی آئی او سے اپنے لئے ادائیگی کا بندوبست بھی کرسکتے ہیں ۔ کارپوریٹس یا افراد کی طرف سے سویم سیوکوں کو ادائیگیوں سے متعلق ودیانجلی کے رہنما خطوط میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔
ماہرین تعلیم کو خدشہ ہے کہ یہ اسکیم آنے والے وقتوں میں سرکاری اسکولوں کو کارپوریٹس اور دیگر نجی گروپوں کے قبضے میں لے جائے گی۔ ان کا خیال ہے کہ نجکاری غریب اور معاشی طور پر پسماندہ طبقوں کی تعلیم تک رسائی کو محدود کر دے گی۔ یہ آنے والے وقت میں ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔
مختلف طبقات کی مخالفت کے باوجود یہ منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ 22 ریاستوں میں چھوٹے پیمانے پر پائلٹ بنیادوں پر بنائے گئے اس پروجیکٹ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ستمبر میں باقاعدہ طور پر شروع کیا ہے۔
اس اسکیم کے تحت وزارت تعلیم نے ودیانجلی پورٹل شروع کیا ہے۔ تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں اپنی خدمات پیش کرنے کے خواہشمند سویم سیوکوں اور کفیل خود کو https://vidyanjali.education.gov.in/ پورٹل پر رجسٹر کروا سکتے ہیں۔
سویم سیوکوں کو اپنے مضمون میں ماہر ہونے اور ان شعبوںمیں اچھی طرح سے ماہر ہونا ضروری ہے جن میں وہ اپنی خدمات دینا چاہتے ہیں ۔
جن اسکولوں کو تعلیمی مضامین اور بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی پورٹل پر رجسٹر ہو سکتے ہیں اور اپنی ضروریات کو تفصیل سے بیان کر سکتے ہیں۔ کرناٹک اور دیگر جنوبی ریاستوں میں بہت سے اسکول اپنی ضروریات کے لیے پہلے ہی پورٹل پر رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے اسکولوں میں تعمیر کیے جانے والے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے تخمینہ بجٹ بھی دیا ہے۔
سویم سیوک اور کفیل اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ان اسکولوں کو لکھ سکتے ہیں جن سے وہ رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، اسکولوں کو سویم سیوکوں اور کفیلوں کی جانب سے پیشکشوں کو قبول یا مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسکولوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ذرائع سے سویم سیوکوں اور کفیلوں کی فراہم کردہ معلومات کی تصدیق کریں۔ اس معاملے میں وزارت تعلیم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔
عام سرگرمیوں کے حصے کے طور پر، سویم سیوک تمام زبانیں بشمول انگریزی، ہندی، سائنس، سماجی سائنس، ریاضی اور مقامی، علاقائی زبانیں، مادری زبان نرسری سے کلاس آٹھویں تک پڑھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ثانوی سطح پر کلاس 10 سے 12 تک کے تمام مضامین بھی پڑھا سکیں گے۔
سویم سیوکوں کو اسکولوں کی ضرورت کے مطابق فنون اور دستکاری، پیشہ ورانہ مہارتوں، یوگا اور کھیلوں کی تعلیم میں بھی شامل کیا جائے گا۔ اس پروجیکٹ میں باصلاحیت طلباء کی رہنمائی، کیریئر کونسلنگ کے لیے طلباء کی رہنمائی، داخلہ امتحانات کی تیاری میں طلباء کی مدد اور مقابلوں کی تیاری کے لیے سویم سیوکوں کو شامل کرنے کے انتظامات بھی ہیں۔
اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کے افراد اور ادارے بنیادی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں جیسے باؤنڈری وال، کلاس رومز، لیبارٹریز، لائبریری، کھیل کے میدان وغیرہ۔ یہ دفعات تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کو سرکاری اور امداد یافتہ اسکولوں میں تعلیم کو مضبوط بنانے میں مدد کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔