تحریر: شیوانگی سکسینہ
جمعرات 21 اکتوبر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال ملک میں مسیحی برادری کے خلاف تشدد کے 300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں اتر پردیش سرفہرست ہے۔ ’کرسچن انڈر اٹیک‘ رپورٹ کوآزاد صحافی عالیشان جعفری، سینئر صحافی پرشانت ٹنڈن، یونٹی آف کمپیشن سے میناکشی سنگھ، یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے لئیق احمد خان اور ندیم خان نے تیار کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق شمالی بھارت میں عیسائیوں کے خلاف حملوں میں گزشتہ نو ماہ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یکم جنوری 2021 سے ستمبر 2021 کے درمیان اتر پردیش میں 66، چھتیس گڑھ میں 47، جھارکھنڈ میں 30 اور مدھیہ پردیش میں 26 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یعنی صرف ان چار ریاستوں میں گزشتہ نو مہینوں میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 169 واقعات ہوئے ہیں۔
اتر پردیش میں عیسائیوں کے خلاف سب سے زیادہ 66 تشدد کے مقدمات درج ہیں۔ اس پر ندیم خان نیوز لانڈری سے کہتے ہیں، ’یہ منصوبہ بند حملے ہیں، یہ مقامی لوگوں کا ردعمل نہیں ہو سکتا۔ حکمران جماعت کی حمایت کے بغیر اس طرح کے واقعات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ انتخابات بھی قریب ہیں۔ پچھلے مہینے ہم نے مسلم علماء کو تبدیلی مذہب کے لیے نشانہ بنتےدیکھا ہے۔ اب عیسائیوں کے ساتھ بھی ایساہی ہو رہاہے ۔ تبدیلی مذہب ایک سیاسی چال ہے ۔ گزشتہ کئی مہینوں سے ہندو یوا واہنی اترپردیش میں اس کام کو دیکھ رہی ہے ۔ بتادیں کہ ہندو یوا واہنی کی شروعات خود یوپی کےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق شاہجہاں پور، رائے بریلی، لکھنؤ، لکھیم پور کھیری، وارانسی، اعظم گڑھ وغیرہ میں عیسائیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ہے۔ جب انہوں نے ایسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تو انتظامیہ کی طرف سے ان کے خلاف ہی مقدمہ درج کر لیا گیا۔
اس کے علاوہ دیگر ریاستیں- بہار (19)، اڈیشہ (15)، مہاراشٹر (13)، تامل ناڈو (12)، گجرات (9)، پنجاب (8)، آندھرا پردیش (5)، ہریانہ (5)، اتراکھنڈ (5) دہلی (3)، تلنگانہ (2)، مغربی بنگال (2)، راجستھان (2)، آسام (1) اور ہماچل پردیش (1) میں بھی عیسائیوں کے خلاف تشدد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی ریاست کرناٹک میں عیسائیوں کے خلاف بڑی تعداد میں تشدد دیکھا گیا ہے۔ کرناٹک میں اسی عرصے میں 32 واقعات درج کیے گئے ہیں۔
دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق چھتیس گڑھ میں بھی ہندو تنظیموں کی جانب سے عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ بتادیںکہ یکم اکتوبر 2021 کو چھتیس گڑھ کے سرگوجا ضلع میں سرو سناتن ہندو رکشا منچ کی طرف سے ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی۔ یہ ’احتجاج‘ ہندوؤں کے عیسائیت اور اسلام میں جبراً تبدیلی مذہب میں مبینہ اضافے کے خلاف تھا۔
اس پروگرام کے مقرر خاص سوامی پرماتما نند مہاراج تھے۔ سیکڑوں کی بھیڑ کو خطاب کرتے ہوئےانہوں نے کہاکہ ’’میں عیسائیوں اورمسلمانوں کے لیے اچھی زبان بول سکتا ہوں ، مگر ان کو یہی زبان سمجھ آتی ہے ۔ دھرم کا رکشا بھگوان کا کام ہے اور یہیں ہمارا کام بھی ہے ۔ ہم کس کے لیے کہلاڑی رکھتے ہیں؟ جو مذہب تبدیلی کرنے آتا ہے اس کی منڈی کاٹو۔ اب تم کہوگے کہ میں سنت ہوتے ہوئے بھی نفرت پھیلا رہاہوں، لیکن کبھی کبھی آگ بھی لگانی پڑتی ہے ۔ میں تمہیں بتا رہاہوں۔ جو کوئی بھی آپ کےگھر ،گلی، محلہ اور گاؤں میں آتا ہے ،انہیں معاف نہیں کرنا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ عیسائیوں کو صحیح راستے پر لگانے کا ’ رکو،ٹوکو، اور ٹھوکو‘ کا فارمولہ بھی دیتے ہیں۔ پرماتمانند مہاراج اونچے سرمیں بولتے ہیں۔ پہلے انہیں (عیسائیوں) دوست کی طرح سمجھاؤ ۔ انہیں ’ روکو‘اوراگر نہیں مانےتو ’ٹھوکو‘ میں ان سے پوچھتا ہوں جو اس مذہب (عیسائی) میں چلے گئے ، سمندر چھوڑ کر کنویں میں کیوں چلے گئے؟ انہیں ’روکو‘، پھر ٹوکو (احتجاج) اورٹھوکو۔‘
اس دوران سیکڑوں لوگوں کی بھیڑ ان کی تقریر سن رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی کے بااثر لیڈران ،جیسے شیڈیول ٹرائب کمیشن کے سابق قومی صدر نند کمار سائی، راجیہ سبھا ایم پی رام وچار نیتم اور بی جے پی کے ترجمان انوراگ سنگھ دیو بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
3 اکتوبر 2021 کو روڑکی میں12 لوگ پراتھنا کرنے کے لیے ’ ہاؤس آف پریئر‘ نامی چرچ میں جمع ہوئے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں تقریباً 200 لوگوں کی بھیڑ چرچ کے اندر گھس گئی اور لوہے کے ڈنڈوں سے وہاں موجود عیسائیوں کو پیٹنے لگی۔ اس دن سادھنا لانس صبح 9:30بجے پراتھنا کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔ سادھنا لانس کہتی ہیں کہ ان لوگوں نے سی سی ٹی وی کیمرے اورہارڈ ڈرائیو کو توڑ دیا۔ پھر ہمیں (عورتوں) کو پیٹنے لگے۔ یہ منظر خوفناک تھا۔ وہ ’جے شری رام‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
پادری کی چھوٹی بیٹی پرل لانس کا الزام ہے کہ ’اس دوران مجھے 30 لوگوں نے گھیر لیا اور میرے ساتھ بدتمیزی شروع کر دی۔ جو عورتیں اس جھنڈ کے ساتھ آئی تھیں وہ مجھے تھپڑ مارنے لگیں اور گالی گلوچ شروع کردیں۔ انہوں نے میرا موبائل بھی چھین لیا جو مجھے ابھی تک نہیں ملاہے ۔ میں نے ان لوگوں کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ ‘
ایوا لانس بھی واقعہ کے وقت چرچ میں موجود تھیں۔ انہوں نے بتایاکہ میں واقعہ سے پہلےچار بار پولیس کو اس خطرے کی اطلاع دے چکی تھی۔ باوجود اس کے پولیس نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ ہمیں شک تھا کہ بدھ سےکچھ نامعلوم لوگ ہمارا پیچھا کررہے ہیں۔ وہ ہم کو تشدد اورمذہب تبدیل کرنے کا الزام لگا کر چھیڑتے تھے۔ میں نے ایس پی ( رورل ) کو میل لکھا ، پولیس اسٹیشن بھی گئی اور دو اکتوبر کو سول لائنس تھانہ میں ایک باقاعدہ شکایت درج کرائی۔ پولیس یقین دہانی کے باوجود تشددکے ایک گھنٹے بعد آئی جب تک ہجوم نے کافی نقصان کر دیا تھا۔
میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے یونائیٹڈ کرسچن فورم کے نیشنل کوآرڈی نیٹر اے سی مائیکل نے کہا، ’عیسائیوں کو ان کے عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے اور ان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ روڑکی (اتراکھنڈ) میں 200 سے زائد لوگوں کا ایک گروپ جہاں ایک پادری پراتھنا کررہا تھا ،لوگوں نے دعویٰ کیا کہ وہ لوگوں کا مذہب تبدیل کرا رہاہے ۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کتنے مذہب تبدیل ہوئےہیں ۔ سرکار کو جانکاری شیئر کرنی چاہئے۔ ایسے بہت سے اہلکار ہیں جو کانونٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں کیا سب نے مذہب تبدیل کرلیا ہے ۔؟
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)