تحریر : مسعود جاوید
جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب آتے ہیں مسلمانوں کو ملی اتحاد کی یاد ستانے لگتی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو جو اس رائے کی شدید وکالت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا ووٹ کسی ایک سیاسی پارٹی کے حق میں ہو، جو لوگ ان کی شدید خواہش اور رائے سے اتفاق نہیں کرتے ان کو یہ لوگ بے جا لعن طعن کرتے ہیں۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس ملک عزیز کے مقدس دستور نے اپنے ہر شہری کو اظہار رائے کا حق دیا ہے وہ اپنے اس حق کے استعمال کے لئے مکمل آزاد ہے کسی بھی فرد بشر پر کسی تنظیم ادارہ انجمن یونین دینی مرجع کا فرمان قابل قبول نہیں ہے۔
تاہم ووٹرز کی سیاسی بیداری کے تربیتی پروگرام چلایا جا سکتا ہے کہ آپ کسی امیدوار اور کسی پارٹی کو کن وجوہات کی بنا پر ووٹ دیں۔ آپ کا ووٹنگ پیٹرن کیا ہو۔ ظاہر ہے ہندوستان ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہے جس میں رفاہی کام اور بنیادی سہولیات سڑک، پانی ، بجلی ، سیور ، اسکول، ہسپتال ، اور امن عامہ فراہم کرنا رفاہی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ رفاہی ریاست میں منتخب حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے مذکورہ بالا سہولیات اور متوسط و ادنی طبقات کو دیگر مراعات دیتی ہے۔ اس لئے ووٹرز کو چاہیے کہ وہ پارٹی اور امیدوار کے ٹریک ریکارڈ کا جائزہ لے اور انتخابی منشور میں پارٹی کے عہد و پیمان پر غور کرنے کے بعد ووٹ کرنے کے لئے رائے بنائے۔
لیکن مذکورہ بالا سہولیات ، فلاحی اسکیموں اور پسماندہ طبقات کے لئے خصوصی مراعات سے بھی زیادہ اہم بالخصوص اقلیتوں اور ان میں بھی مسلمانوں کے لئے سیکورٹی ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران حقیقی معنوں میں یا بعض مفروضوں کی بنیاد پر عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے اس لئے مسلمانوں کا اولین مسئلہ جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ ہے۔ سیکورٹی یا تحفظ فراہم کرنے میں کس سیاسی پارٹی پر زیادہ اعتماد کیا جا سکتا ہے یہ ذہن میں رکھنا ہوگا۔
بدقسمتی سے مذکورہ بالا وجوہات، خواہ رفاہی خدمات ہوں یا جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ، الیکشن قریب آتے آتے ووٹنگ پیٹرن سے غائب ہو جاتی ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ روایتی لیڈر اور پارٹی کے توسط سے سڑک، چیک ڈیم کے ٹھیکے حاصل کرنے والے اور پارٹی سے قربت کی بناء پر دبنگئ کرنے والے عام ووٹرز کو جذباتی بیانیوں سے گمراہ کرتے ہیں : سماجوادی پارٹی کا اعظم خان کے ساتھ جو رویہ رہا اس کا انتقام لینے کی بہترین صورت یہ ہے مسلمان متحد ہو کر بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ دیں ! اعظم خان صاحب کو اللہ جلد از جلد شفا بخشے مگر ان کے ساتھ سپا کا سلوک مسلمانوں کے ووٹنگ پیٹرن کو ایک شخصیت میں محدود کرنا سیاسی شعور کے فقدان کی واضح مثال ہے۔ سپا سے کنارہ کشی کی اس سے کہیں بہتر وجہ یہ کہنا ہوگا کہ سپا دور حکومت میں مظفر نگر کے مسلمان خاک و خون سے گزر رہے تھے جان و مال عزت و آبرو کی پامالی اس قدر ہوئی کہ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا تھا اور دوسری طرف سماجوادی پارٹی شیفئ جشن منا رہی تھی جس میں مسلم وزراء اور ممبران اسمبلی بھی شریک ہوکر ممبئی شہر عیش و عشرت کی رقاصاؤں کی رقص فنکاروں کے نغمے اور موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ہممین اسٹریم کے اٹوٹ حصہ ہیں اس لئے ملک کی تعمیر و ترقی کی اب تک کی حصولیابیوں اور مستقبل کے منصوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ووٹ کرنا چاہیے۔ لیکن مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان سے مین اسٹریم میں بھر پور شرکت کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے مگر ان کی سیکورٹی کے موضوع پر بات کرنے کو ناپسند کیا جاتا ہے ۔ میں بھی مانتا ہوں کہ تعمیراتی کام اور رفاہی خدمات عمومی ہوتے ہیں جس کا فائدہ تمام شہریوں بشمول مسلمان کو ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے کسی لیڈر کی گمراہ کن باتوں میں نہ آئیں کہ ہماری حکومت نے مسلمانوں کے لئے یا مسلم علاقوں محلوں اور کالونیوں کے لئے یہ یہ کام کئے اور مزید یہ کرنے کے منصوبے ہیں۔ یہ سیاسی ہتھکنڈے ہیں کہ چار سال تک ترقیاتی کاموں کے اعلان شدہ منصوبوں کو روک کر رکھا جائے اور انتخابات سے پہلے ایسے پروجیکٹس کا افتتاح کیا جائے تاکہ عوام کے ذہنوں میں یہ تازہ رہے اور اس پارٹی کو ووٹ کریں۔
جہاں تک مین اسٹریم موضوعات میں مسلمانوں کی عدم دلچسپی یا کم دلچسپی کی شکایت ہے تو شکایت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس کےگھر میں جس چیز کی قلت ہوتی ہے وہ اسی کے لئے تگ و دو کرتا ہے۔ جس طرح کسی کے گھر میں آٹے کی کمی ہو تو وہ گھر کی تعمیر کی بات نہیں کرے گا۔ اسی طرح مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس گھر چکا ہو تو سیکورٹی اس کی اولین ترجیح ہوگی تعمیر و ترقی کی حیثیت ثانوی ہو گی۔
انتخابی مہم کے دوران پارٹی اور امیدوار کے رجحانات جاننے ضرورت ہوتی ہے ان سے وعدے کرائے جاتے ہیں کہ ہم ووٹ آپ کو اس صورت میں دیں گے جب آپ ہماری سیکورٹی کے لئے حکومت کو ہماری سیکورٹی کے لئے ضروری اقدامات کریں گے۔ قانون بنوائیں گے اور ملزمین کو قرار واقعی سزا دلائیں گے۔
دلتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف دلت اتیاچار مخالف قانون بنے تو تھانوں میں ان کی شکایتیں درج ہونے لگیں ورنہ ان کی شکایت بھی درج نہیں ہوتی تھی اب کم از کم ایف آئی آر لینے سے عموماً پولیس اسٹیشن افسر ٹال مٹول یا انکار نہیں کرتا۔ غالباً 2012 یا 2013 میں مرکزی وزارتِ داخلہ نے ہر ریاست سے اعداد و شمار مانگا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں کے تھانوں میں کتنے مسلم افسران ہیں ۔ شاید ایک یا دو ریاستوں نے مبہم جواب دیا دیگر ریاستوں نے قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے کہ ۔مسلم اکثریتی علاقوں کے پولیس اسٹیشنوں پر چند مسلم افسران کی تعیناتی کا مطالبہ ہو ۔