کابل : (ایجنسی)
15 اگست 2021 کو طالبان نے افغان دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھالا اور 20 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ کر دیا تھا، اس دوران ایک طرف افراتفری، احتجاج، ڈرون اور خودکش حملوں کا سلسلہ تھا تو دوسری جانب طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی اور عام معافی کے اعلان کے ساتھ نئی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق آج سقوط کابل کو ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ یہاں پر ترتیب وار کچھ مختصر تفصیلات پیش ہیں کہ طالبان کے اس ایک ماہ پر محیط حالیہ دور حکومت دور میں افغانستان میں کیا کچھ ہوا۔
15 اگست: طالبان کابل میں داخل ہوئے، غیر ملکی اور افغان عوام ملک چھوڑنے کے لیے کوشاں تھے جس کے نتیجے میں کابل ہوائی اڈے پر افراتفری مچی ہوئی تھی اور اس دوران کئی لوگ مارے گئے۔
17 اگست: امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے انخلا پر خاموشی توڑتے ہوئے اپنا بیان جاری کیا، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سقوط کابل کے بعد پہلی پریس کانفرنس کی، ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کا احترام کیا جائے گا اور کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔
18 اگست: مشرقی شہر جلال آباد میں طالبان مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے جس میں کم از کم 3 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
19 اگست:کابل ایئرپورٹ پر افراتفری کے مناظر برقرار تھے، اس دوران لوگوں کی بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے طالبان کی فائرنگ کے نتیجے میں بھگدڑ مچنے سے مزید کئی افراد ہلاک ہو گئے، اسد آباد اور کابل میں طالبان مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے اور طالبان کے سابق دشمنوں کو پوچھ گچھ کے لیے پکڑے جانے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔
21 اگست: طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مظالم کی رپورٹس کی تحقیقات کریں گے اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے، انہوں نے کہا کہ ہوائی اڈے پر مچنے ولی بھگدڑ کے وہ ذمے دار نہیں تھے بلکہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ درست کاغذی کارروائی کرنے والوں کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔
23 اگست: حاجی محمد ادریس کو اقتصادی بحران کے سبب افغانستان کے مرکزی بینک کا قائم مقام گورنر نامزد کیا گیا۔
24 اگست: ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ لاکھوں افغان عوام جلد ہی بھوک و افلاس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
26 اگست: کابل ایئرپورٹ کے قریب خودکش بم حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہو گئے، اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
27 اگست: امریکی فوج نے داعش کے منصوبہ ساز کے خلاف ڈرون حملہ کیا۔
29 اگست: کابل میں امریکی ڈرون حملے میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد ہلاک ہو گئے، طالبان نے حملے کی مذمت کی تھی۔
30 اگست: امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ امریکی جنرل فرینک میکنزی نے 20 سالہ جنگ ختم کرتے ہوئے امریکی فوج کے انخلا کی تکمیل کا اعلان کیا۔ طالبان نے افغانستان کے لیے آزادی کا اعلان کیا۔
31 اگست: طالبان کو بینکوں پر لمبی قطاریں، اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور افغانستان چھوڑنے کی کوشش کے لیے خطرناک زمینی راستے اختیار کرنے والے لوگ سمیت ابتدا میں چند اہم چیلنجز درپیش ہیں۔
3 ستمبر: طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے صوبہ پنج شیر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جو کہ طالبان مخالف جنگجوؤں کا آخری گڑھ تھا البتہ مزاحمتی گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی لڑ رہے ہیں۔
4 ستمبر: کابل ایئرپورٹ کو امدادی پروازوں اور مقامی سروسز کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا۔
7 ستمبر: طالبان نے اپنی نئی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔
9 ستمبر: طالبان کی نئی حکومت کے تحت پہلی تجارتی بین الاقوامی پرواز 100 سے زائد غیر ملکیوں کو لے کر کابل سے روانہ ہوئی۔
13 ستمبر: بین الاقوامی امدادی اداروں نے افغانستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر امداد کا وعدہ کیا۔
14 ستمبر:جنوبی شہر قندھار میں ہزاروں افراد نے طالبان کے سابق فوجی کالونی سے خاندانوں کو بے دخل کرنے کے منصوبے کے خلاف احتجاج کیا۔