تحریر:مسعود جاوید
۔ہر امیر غریب ، عورت مرد، لڑکا لڑکی اور بوڑھا بچہ کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے اور ہر ایک کو انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہیں ۔ یہ سہولیات نعمت ہے یا لعنت اس کا انحصار اس کے استعمال پر موقوف ہوتا ہے۔ایک دوسرے سے جڑنے کے لیے اتنا تیز رفتار ذرائع ابلاغ کوئی اور نہیں ہے۔پچھلے تقریباً دس سالوں سے ہم روز ہی دیکھ رہے ہیں کہ ایک مخصوص طبقہ اپنے مخصوص نظریات اور صحیح غلط تاریخ سوشل میڈیا پر پروس کر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ اس کی ٹیم ایک مختصر مسودہ تیار کرتی ہے اور اپنے گروپ میں بھیج دیتی ہے ۔
اسی میسیج کو ہر گروپ شیئر کرتے ہیں اور اس طرح وہ میسیج لاکھوں لوگوں تک پہنچتا ہے ۔ لوگوں کو اس گروپ کی دیانتداری پر اتنا یقین ہوتا ہے کہ سچ اور جھوٹ کی اپنے طور پر تحقیق بھی نہیں کرتے۔ہندوستان کے تقریباً ہر علاقے میں دینی شعور رکھنے والی تعلیم یافتہ مسلم خواتین/ عالمات ہیں گرچہ ان میں سے زیادہ تر اپنے گھر گرہستی میں مشغول ہوتی ہیں لیکن جہاں چاہ ہے وہاں راہ when there is a will there is a way. اگر وہ چاہ لیں تو اپنے اپنے علاقوں میں وہاٹس ایپ گروپ بنا کر ملت کی لڑکیوں کی دینی تربیت کر سکتی ہیں۔موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگانے کی بات حقیقت سے آنکھ چرانے کے مترادف ہے۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی نہیں ان کے صحیح استعمال پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ٹول کٹ کے ذریعے لوگوں تک صحیح معلومات پہنچانے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا صرف مسلم لڑکیوں کی تربیت کی ضرورت ہے مسلم لڑکوں کی نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بلا شبہ مسلم لڑکوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے لیکن ‘مرد برتر معاشرہ’ جیسی سوچ کی وجہ سے عموماً خواتین کو مساجد میں جمعہ کے خطبے سننے کا موقع ملتا ہے اور نہ ہفتہ ماہانہ، ہفتہ وار اصلاح معاشرہ کے پروگرام میں شرکت کا۔ ایک ذہنیت ہے جس نے مسلمانوں کی آدھی آبادی کو مختلف تربیتی پروگراموں سے فیضیاب ہونے سے روکتی رہی ہے۔ عموماً عذر یہی پیش کیا جاتا رہا ہے کہ اختلاط مرد و زن معاشرہ میں اصلاح سے زیادہ فساد کا باعث ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔
لیکن اب جبکہ ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے تعلیم یافتہ خواتین اپنے اپنے علاقوں کی خواتین کا گروپ بنا کر معاشرہ میں اخلاقی انحطاط کو روک سکتی ہیں ۔ نوعمر لڑکیوں کو جھوٹے عشق و محبت کے دام فریب سے بچانے کے لیے رہنمائی اور کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ جذبات سے سرشار عمر کی اس دہلیز پر ذرا سی بے توجہی دین اسلام اور خاندان کی عزت ملیا میٹ کر سکتی ہے یہ بات انہیں آئے دن رو نما ہونے والے واقعات کی مثال سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔