تحریر: مسعودجاوید
دینی مدارس میں ہائی اسکول تک کی تعلیم کی حمایت میں بات کرنے والے ان ذمہ داران مدارس یا اثر رسوخ والے علماء کا میں قطعاً شکر گزار نہیں ہوں جو مدرسوں کا سروے کی شروعات کے بعد کہہ رہے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند نے اجلاس میں "قابل ستائش قدم اٹھایا” اور یہ کہ "کاش پچاس سال قبل یہ قدم اٹھایا گیا ہوتا! مدارس کے نصاب تعلیم اور نظام میں اصلاح کی ضرورت پر ایک عرصہ سے لکھنے والے لکھ رہے ہیں کیا کبھی ان کی تحریروں کو قابلِ اعتناء سمجھا گیا ، کبھی ان سے رابطہ کیا گیا یا کبھی ان سے منفی اور مثبت متوقع نتائج پر مبنی feasible study کے لئے کہا گیا یا ان سے تجاویز مانگی گئی ؟ اجلاس میں جس طرح عجلت میں اعلان کیا گیا وہ اعلان اتنا مبہم ہے کہ خود ذمہ داران مدارس وضاحت کرتے پھر رہے ہیں کہ یہ مراد نہیں ہے اور کہنے کا مقصد وہ نہیں تھا ! نصاب تعلیم میں اصلاح ایک وقت طلب کام ہے جس کے لئے ماہرین بالخصوص ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو دینی اور عصری دونوں درسگاہوں سے نہ صرف فارغ التحصیل ہوں بلکہ مختلف نصاب تعلیم سے واقفیت رکھتے ہوں۔ لیکن اصلاح سے قبل CBSE طرز پر حقیقی وفاق المدارس کی تشکیل کی ضرورت ہے جس سے سبھی مدارس کا الحاق لازمی ہو اور چھوٹے بڑے سبھی مدارس اس وفاق/ بورڈ کی شرائط پوری کریں بصورت دیگر وہ مدرسے بند کر دیۓ جائیں گے۔وفاق (بورڈ) کی شرائط میں یہ ہوں : ١- اقل رقبہ اراضی ، ٢- درسگاہوں کی طے شدہ پیمائش ،
٣- لائبریری ،٤- ریڈنگ روم ( دارالمطالعہ) ٥- ہاسٹل میں معقول بیڈ کا نظم ٦- انڈور گیم کے لئے ہال٧- صالة الطعام یعنی ایسا ہال جس میں فرش پر بیٹھنے کا معقول انتظام ہو ، دسترخوان بچھایا جائے اور ہر طالب علم اپنی پسند اور طبیعت کے مطابق جتنا چاہے لے یا نہ لے۔ کمروں پر لے جانے سے کافی مقدار میں بچے ہوئے کھانے پھینک دیئے جاتے ہیں ۔ ٨- ہر درجہ میں طلباء کی متعین تعداد ۔ زیادہ ہونے کی صورت میں سیکشن ۔ ٩- تدریس کے لیے تربیت یافتہ معلمین ( بی ایڈ طرز کے فارغین) تخصص کے مطابق درسی کتب دی جائیں ١٠
– معلمین کے لئے معقول مشاہرہ اور دیگر سہولیات وفاق المدارس طے کرے۔لیکن افسوس جو ماہرین فقہ و حدیث آج اصلاح کے اعلان پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور حسرت بھری آہ نکال رہے ہیں کہ یہ کام پہلے کیوں نہیں ہوا، ان میں سے بہت سے حضرات مختلف مدرسوں سے وابستہ ہیں راست طور بطور مہتمم ناظم صدر مدرس یا بطور ارکان شوری
انگریزوں نے کوس کو میل سے بدل دیا یعنی برطانوی پیمائش رائج کیا جس کی بنیاد فٹ اور انچ پر ہے، تین فٹ کا ایک گز۔ ایک گز جس میں بارہ گرہیں ہوتی تھیں ۔ اسی طرح فرلانگ اور میل ۔۔ سیر چھٹانک کیلو، گرام اور ملی گرام میں ، گز میٹر ، سینٹی میٹر اور ملی میٹر میں ، من ٹن میں تبدیل ہوا۔ اب اگر اسکول و کالج میں مٹھی ، چٹکی، انگل ، بالشت، ہاتھ ، دو ہاتھ ، گز ، گرہ، کوس پڑھایا جائے اور ان عصری دانشگاہوں کے گریجویٹس اپنی بات چیت میں معاملات میں انہی اصطلاحات کا استعمال کریں تو سننے والے ظاہر ہے ایسے لوگوں کو جاہل کہیں گے اس لیے کہ ناپ تول کے اس زمانے میں رائج پیمانوں کا انہیں علم نہیں ہے۔
دینی مدارس میں کتاب و سنت کی روشنی میں تجارت و معیشت اور لین دین معاملات کے لئے علم فقہ ہے جو ہر دینی مدرسہ میں پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن افسوس آج تک ان فقہی کتابوں میں ہندوستان، بر صغیر بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں رائج میٹر ، کیلو ، ٹن ، لیٹر وغیرہ سے صاع، مد، رطل، ذراع، فرسخ ، رتی، ماشہ ، تولہ، کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ نتیجہ آپ کسی مدرسہ کے عام فارغ سے زکوٰۃ کا نصاب پوچھیں تو بلا تاخیر کہے گا جس کے پاس ساڑھے سات بھر سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو اور حولان حول ہو اس مال پر زکوٰۃ ادا کرنا لازمی ہے۔ وہ تولہ اور ماشہ اس لئے بتاۓ گا کہ ابتداء سے فراغت تک اسے یہی پڑھایا گیا ہے ۔ وہ فی زمانہ رائج گرام میں نہیں بتائے گا الا یہ کہ اس کے لئے اس نے الگ سے مطالعہ کیا ہو۔