مصنف :پرویزہودبھائی
مترجم:مقبول احمدسراج
گزشتہ مئی کے 11دن وہ دہشت ناک دن تھے جب ساری انسانیت نے دنیا کو اس آزاد فضاجیل جسے ہم غزہ پٹی کے نام سے جانتے ہیںپر جہنم کی آگ برستی دیکھی۔ ہم نے ان گرتی عمارتوں کے ملبے سےبچوں کو بھی نکلتے دیکھا جن کے معصوم چہروں پر خون کے ریلے جاری تھے۔ ہم میں سے ہرکوئی جانتا ہے کہ یہ ٹریجڈی دہرائی بھی جائے گی۔ تمام عرب و مسلم دنیا میں ہم نے بلاتکان و بے دریغ اسرائیلی بمباری بھی دیکھی۔ اور ہم اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ اس غارتگری کے جواب میں مسلم ممالک میں محض چند قراردادیں پاس ہوئیں اور کہیں کچھ نوجوان اسرائیلی پرچم کو پاؤں تلے روندتے اور نعرے لگاتے نظرآئے۔
اس صورتحال اور منظر کو دیکھنے کے بعدیہ سوال لازمی طورپر ہمارے ذہنوں میں اٹھنا چاہئے کہ اسرائیل کی اس دیدہ دلیری کے پس پردہ وہ کون سے محرک ہیں جو اس کو انجیل کے کردار جالوت کی طاقت بخشتے ہیں حالانکہ اس کی کل آبادی محض 90لاکھ ہے جو کراچی کی آبادی کے نصف سے کچھ زائد ہے۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھناچاہئے کہ سواچارکروڑ عرب جن کے خزانے دولت سے لبریز ہیں کیوں بین الاقوامی سیاست میں بونے ہیں۔ خلیجی تعاون کونسل (GCC)کے اراکین پاکستان جیسے مسکین ملک کے وزیراعظم کو مختصرسی فون کال پر طلب کرکے چند ہزار ٹن چاول دیکر تابعداری کا مطالبہ تو کرسکتے ہیں۔ مگر یہ اسرائیل کے روبرو کیوں سرتسلیم خم کردیتے ہیں جس کے پاس کوئی قدرتی وسائل نہیں۔
ان سوالات کے جواب میں ہم میں سے بہتیرے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرائیںگے۔ اگر اس سے آپ اپنے نفس کو مطمئن کرنا چاہتے ہوں تو یہ بھی کرگزریں۔ اس صدی کے اولین انیس برسوں (2000-2019) کے دوران مغربی ممالک (امریکہ، برطانیہ، فرانس، اسپین اور جرمنی) نے عالمی اسلحہ کے خریدوفروخت کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے نوارب ڈالرکے اسلحہ اسرائیل کو فراہم کئے ہیں۔ مگر انہیں ذرائع سے حاصل شدہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انہیں انیس برسوں میں سعودی عرب نے 29ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات (UAE)نے 20ارب ڈالر، مصرنے ساڑھے 17ارب ڈالر، ایران نے نوارب ڈالر اور قطر نے چھ ارب ڈالر کے اسلحہ خریدے۔ مگر سچائی تو یہ ہے کہ ان عرب ممالک پراگر اسرائیل حملہ آور ہو تو یہ عرب ممالک ان قیمتی اسلحہ سے اپنا دفاع نہیں کرسکیںگے۔ اس کے ثبوت کے طور پر سعودی عرب کی حالت ملاحظہ ہو، جو یمن میں بے پناہ انسانی ہلاکتوں کے باوجود ایران کے تائید کردہ حوثی قبائل کو بھی زیرنہیں کرپایا ہے حالانکہ سعودیوں کو نوعرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
اس حقیقت بیانی کے فوری بعد ہم فلسطینیوں کی بدنصیبی کے لئے عربوں کے باہمی افتراق کو مورد الزام ٹھہرائیںگے۔ اس میں کچھ سچائی تو ضرور ہے۔ عربوں کی موجودہ صورتحال کے لئے ان کے درمیان اختلافات اور مخاصمت وجہ ضرور ہیں۔ مگر خدارا مجھے یہ بتائیے کہ عرب کب متحدرہے تھے۔ تاریخی طورپر تو 634ء سے 750ء وہ واحد مدت تھی جب وہ باہم متحدتھے اور اسی عرصے میں انہوں نے تقریباً تمام فتوحات حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد 1956میں جب جنرل ناصرنے جنگ کے بعد نہرسوئیز کو اپنی تحویل میں لیا وہ میعاد تھی جب ان کے اتحاد نے کچھ کرشمے دکھائے۔ مگر یہ اتحاد ان کو 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے ہاتھوں شرمناک شکست سے نہ بچاسکا۔ اور اس شکست نے اسرائیل کی سرحدوں میں بے پناہ توسیع کردی۔ ہم میں سے تمام عرب نواز لوگ اور فلسطین کے تمام حامی اس بات کے خواہاں ہیں کہ فتح اور حماس اپنے اختلافات دور کرلیں اور ایک ہوجائیں مگر اس سے بھی بات بنتی نظر نہیں آتی اور عرب،اسرائیل تعلقات کے بیلنس پر خاطرخواہ اثرنہیں ہوگا۔
سچائی یہ نہیں ہے کہ اسرائیل کی طاقت کاراز اس کے اسلحہ میں پوشیدہ ہے۔ اس کے لئے ہماری نظروں کو کچھ پیچھے مڑکر دیکھنا ہوگا۔ اسرائیل عرب دنیا میں ایک کالونی ہے اور یہ کالونی مقامی آبادی کے ساتھ ویسا ہی نسلی امتیازی رویہ رکھتی ہے جو جنوبی آفریقہ میں Apartheid کا پالیسی تھا۔ اور انگریزوں نے انہیں دوپالیسیوں یعنی نوآبادیاتی اور نسلی امتیاز کی پالیسی کوبرت کر برصغیر کو اپنی نوآبادی بنایاتھا اور انہیں کے ڈھائی سوبرس کے نوآبادیاتی دور میں انہوں نے ایک ایسے عوام کو غلام بنائے رکھا جن کی آبادی اس عرصے میں 20کروڑسے بڑکر 45کروڑ پہنچی تھی۔ ان 250برسوں میں سفیدفام برطانوی سپاہ کی تعداد کبھی بھی پچاس ہزار سے زائد نہ تھی۔ یہ صحیح ہے کہ ان کی بندوقوں اور توپوں کی قوت بھی ان کے ہمراہ تھی مگر اس سے بڑی قوت جو انہیں اس بڑی کالونی کو دست نگر رکھنے میں معاون تھی وہ ایسی نہیں جس کا ہمیں علم و ادراک نہ ہو۔ ان کی یہ قوت وہ نظریاتی قوت تھی جو ذہنی پیداوار تھی اور جو زندگی کے تئیں سیکولر اپروچ، جدیدنظام عدل اور نئے سماج کی تنظیم کا خاکہ رکھتی تھی۔ اس قوت کا سرچشمہ ان کا وہ تعلیمی نظام تھا جو مذہبی صحیفوں کو محض زبانی رٹنے کی حوصلہ شکنی کرتاتھا، جو غووفکر کے سوتوں کو جھنجھوڑتا اور ورغلاتاتھا، جو اس مادّی دنیا کے حال و مستقبل کی فکر کرتاتھا، جو انسانوں کو درپیش مسائل کی یکسوئی کی فکر کرتا تھا اور معقولیت اور سائنسی طرز فکر کی ہمت افزائی کرتا تھا۔ ذرا سوچئے کہ کس طرح شمالی بحراوقیانوس کے اس جزیرے کے عوام نے ریلوے اور ٹیلی گراف جیسی دونئی سائنسی دریافتوں کے ذریعے ایک ایسا سامراج قائم کیا جس پر کبھی سورج نہیں ڈوبتاتھا۔
مختصراً اتنا کہنا کافی ہوگی کہ آج سامراجی طاقتیں جسمانی قوت سے نہیں بلکہ ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر قائم ہوتی ہیں۔ وقت کی پیش قدمی کے ساتھ یہ حقیقت اب اور بھی واضح ہوکر سامنے آرہی ہے۔ تو اب یہ سوال فطری ہوگا کہ ذہن کہاں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ پیدا تو ماؤں کے رحم سے ہی ہوتے ہیں مگر اسکولوں اور کالجوں میں ان کی ساخت اور استعداد متعین ہوتی ہے۔ لہٰذا اب یہ کلیہ مسلّمہ ہے کہ ہمیں تعلیمی نظام کو درست کرنا ہوگا، اس کارُخ متعین کرنا ہوگا تاکہ دنیا میں تمام اقوام کے لئے ترقی کے ذرائع مساوی ہوں اور طاقت کا توازن مناسب ہو اور عدم مساوات کا خاتمہ ہو۔ مگر شاید اسے ایک جملے میں بیان کرنا جتناسہل ہو اس پر عمل کرنا اتنا آسان نہ ہو۔ اسکولوں کی عمارتیں کھڑی کرنا اور اساتذہ فراہم کرنا اتنامشکل نہیں جتنا کسی طالب علم کی باطنی صلاحیتوں کو ابھارنا اور اسے بروئے کار لاناہے۔ عربوں نے اپنی بے پناہ دولت سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بے انتہاخوبصورت کیمپس قائم کرلئے ہیں اور امریکی ویوروپی اساتذہ بھی درآمد کرلئے ہیں۔ مگرنتیجہ صفر۔ کیوں؟ کیونکہ تعلیم اور سیکھنے اور سکھانے، غوروفکر اور تجزئیے و تجربے کے تئیں ان کی روش میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
مسئلہ جنیاتی (Genetics)کا نہیں۔ عربوں کا ماضی شاندار رہا ہے اور وہ شاید اتنے ہی ذکی و فہیم ہیں جتنے اشکِ نازی (Ashkenazi)یہودی ہوںگے۔ مگر ان دو گروہوں کی کامیابی کی پیمائش کے معاملے میں ان کے معیارات اور رول ماڈل مختلف ہیں۔ اشکِ نازی یہودیوں کے نوجوان اور بچے البرٹ آٹنس ٹائن، نیل بور (Niels Bohr)، جان وان نیومین (John von Neuman) ، جارج والڈ (Gearge Wald)، پال سیموئلسن (Paul Samuelson) گرٹروڈایلین (Gertrude Elion)، رالف لارین (Ralph Lauren)، جارج سوروز (George Soros)، اور ایسی ہی دیگر ہزارہا شخصیات کو اپنا رول ماڈل بناتی ہیں جن کے تذکروں اور عطیات سے فزکس، ریاضی، فلسفہ، ٹکنالوجی، طبّ اور تجارت کی کتب بھری پڑی ہیں۔ آپ ان کا موازنہ ان عرب بچوں سے کرلیں جو سلطان صلاح الدین ایوبی یا ان پاکستانی بچوں جو شہسوارترک غازی ارطغرل کو اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہیں۔ ان کے تصورات میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ خود اپنے سائنسدان عبدالسلام کی کوئی جگہ نہیں جس کو خود اس کی قوم نے مسترد کردیا۔
Notes and Reference
نیلس بور (Niels Bohr)ایٹم کی ساخت اور کوانٹم تھیرری کا خالق تھا جسے 1922میں نوبل پرائزدیاگیا۔جان وان نیومین (John von Neuman) ہنگری میں پیداشدہ اور امریکی شہریت یافتہ اپنے وقت کا نامور ریاضی دان، اور کمپیوٹرسائنٹسٹ تھا۔جارج والڈ (Gearge Wald)نے انسانی آنکھ کی پتلی (Retina) میں وٹامن اے دریافت کیا تھا۔ پال سیموئلسن (Paul Samuelson) امریکی ماہراقتصادیات تھا جسے 1970میں اکنامکس کا نوبل انعام دیاگیا۔ اسے ’’جدیداکنامکس کا خالق‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔گرٹروڈایلین (Gertrude Elion) امریکی دواساز سائنسدان تھا جس نے ایڈز Aidsکی دوا دریافت کی اور اسے دیگر دو سائنسدانوں کے ہمراہ 1988کا نوبل انعام دیاگیا۔ رالف لارین (Ralph Lauren) امریکی فیشن ڈزائنر ہے جو رالف لارین کارپوریشن کا مالک ہے۔ جارج سوروز (George Soros) ہنگری سے امریکہ ہجرت شدہ سرمایہ کار جو اپنی سرمایہ کاری اور خیرات کے لئے جانا جاتا ہے۔
مصنف پرویزہودبھائی نیوکلیئرفزیسسٹ ہیں اور فارمین کرسچین یونیورسٹی لاہور میں فزکس کے پروفیسرہیں۔ اس سے قبل وہ قائداعظم یونیورسٹی میں بھی استادرہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق اور سیکولرازم کے علمبردارہیں۔ یہ مضمون کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامےDawn کی 29؍مئی 2021کی اشاعت سے اخذ کیا گیا ہے۔ اردو مترجم مقبول احمدسراج بنگلومیں مقیم صحافی ہیں۔جاری شدہ مؤرخہ 7؍جون 2021ء
الحمد اللہ، انتہائی جامع، بے لاگ، بے باک اور مربوط تبصرہ، لیکن جن ذہنوں تک رسائی مقصود ہے وہ صدیوں سے بند ہیں۔ وقت کا کوئی طوفان اب تک انہیں غیر مقفل نہیں کر پایا۔ ایسا ہرگز مقصد ایزدی نہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مصلحت خدادوندی ہے۔ الاماں الحذر