تحریر: قبول احمد:
اترپردیش میں تین دہائیوں سے اقتدار سے باہر کانگریس اپنی سیاسی زمین کی تلاش میں ہر قسم کے سیاسی تجربات آزما رہی ہے۔ جبکہ ایس پی-بی ایس پی-بی جے پی ریاست میں برہمن اور او بی سی ذاتوں کو سادھنےمیں مصروف ہے تو کانگریس مسلم سماج کے ووٹوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کانگریس میں مسلم ووٹوںکو اپنے پالے میں لانے کے لیے پیر کو لکھنؤ میں اقلیتی کنونشن کااہتمام کیاگیا ،جسے’پریورتن سنکلپ مہا سمیلن ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔
کانگریس نے اقلیتی کنونشن کے ذریعے انتخابی مہم شروع کر رہی ہے۔ کانگریس دوسری پارٹیوں بالخصوص ایس پی سے برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ریاست میں ایس پی ، بی ایس پی اور بی جے پی نے ابھی تک کوئی اقلیتی کنونشن نہیں کیا ہے ، ایک طرح سے ایس پی کے خالص ووٹر سمجھے جانے والے مسلم ووٹروں کو کانگریس اپنے پالے میں لانے کی کوشش میں ہے، ایسے میں کیا یوپی کے مسلمانوں کا دل کانگریس کے لیے 2022 کے انتخاب میں نرم ہوگا ؟
یوپی میں مسلم ووٹوں پر ایس پی اور کانگریس کے درمیان شہ -مات کا کھیل چل رہا ہے اور ریاست کا مسلمان خاموشی کے ساتھ بیٹھا انتخاب کا انتظار کررہاہے ۔ ریاست میں پرینکا گاندھی سی اے اے – این آر سی مخالف تحریک کے دوران سے اقلیتوں کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونے کو کانگریس مسلمانوں کے درمیان فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہیں۔ وہیں اکھلیس یادو نے گزشتہ دنوں سی اے اے – این آر سی مخالف تحریک میں درج کے گئے مقدمے ہٹانے کی بات کہی تھی تو اب کانگریس نے مقدمے ہٹانے کےساتھ معاوضہ دینے کا بھی اعلان کردیا ہے ۔
کانگریس کی اقلیتی کمیٹی کے ریاستی صدر شاہنواز عالم کا کہنا ہے کہ 1990 کے بعد سے یوپی میں جتنی بھی پارٹیاں اقتدار میں آئی ہیں ، انہوں نے صرف مسلمانوں کو ٹھگنے کا کام کیا ۔ ایس پی اور بی ایس پی سرکار نے مسلمان ووٹوں کے دم پر سرکار بنایا ، لیکن کام مایاوتی نے جاٹو کا کیا تو اکھلیش یادو نے یادو سماج کا کیا۔ مسلمانوں کے مسائل پر ایس پی اور بی ایس پی بولنے کو بھی تیار نہیںہے ، ایسے میںکانگریس ہی اکلوتی پارٹی ہے ، جو مسلمانوں کے حقوق اور اختیار کے لیے لڑر رہی ہے ۔
شاہنواز عالم کا کہنا ہے کہ کانگریس مسلم سماج کو متحد کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ اس کے بعد ہم پوری یوپی میں اسی طرح کی کانفرنسیں کریں گے اور مسلمانوں سے بات چیت کے بعد ہم نے ان کے مسائل کو اپنے منشور میں شامل کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ کانگریس مسلمانوں کے غریب اور پسماندہ طبقات پر توجہ دے رہی ہے۔ کانگریس نے ایسے لوگوں کو تنظیم میں شامل کیا ہے۔
کانگریس نے بنکراور قریشی سماج پر زیادہ زور دیا ہے ۔ قریشی مغربی یوپی اور بنکر مشرقی اترپردیش میں کئی سیٹوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کانگریس کی کوشش مسلمانوں کے ایک اجتماعی ووٹر کے بجائے اس کے اندر کی ذاتی فارمولیشن کو سادھنے کی ہے۔اس نے صرف پولرائزیشن کی کم گنجائش ہوگی بلکہ ایس پی کے خلاف بھی پسماندہ مسلمانوں میں ناراضگی بڑھ سکتی ہے ۔
یوپی کی سینئر صحافی سید قاسم کاکہتے ہیں کہ یوپی میں 2014 کے بعد سے مسلم ووٹ بے معنی ہوگیا ہے ۔ ریاست میں تمام پارٹیاں مسلمانوں کا ووٹ تو لینا چاہتی ہیں ، لیکن مسلمانوں کی کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ مسلم سماج پوری طرح سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایسے میں کانگریس نے مسلم سمیلن کرکے ایک آغاز کیا ہے ،جو ایس پی کے لیے تشویش بڑھانے والا ہے ۔ یوپی مسلم ایس پی کا روایتی ووٹر مانا جاتا ہے ،ایسے میں کانگریس کی مسلمانوں کے درمیان سرگرمی ایس پی کے لیے بے چینی بڑھانے والی ہے ۔
سینئر یوپی صحافی سید قاسم کا کہنا ہے کہ یوپی میں مسلم ووٹ 2014 سے غیر متعلقہ ہو گیا ہے۔ ریاست کی تمام جماعتیں مسلمانوں کو ووٹ دینا چاہتی ہیں ، لیکن کوئی بھی مسلمانوں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ مسلم کمیونٹی مکمل خاموشی میں ہے۔ ایسی صورتحال میں کانگریس نے ایک مسلم کانفرنس منعقد کر کے آغاز کیا ہے ، جس سے ایس پی کے لیے تشویش بڑھنے والی ہے۔ یوپی مسلم کو ایس پی کا روایتی ووٹر سمجھا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں میں کانگریس کی سرگرمی ایس پی کے لیے بے چینی بڑھانے والی ہے۔
لکھنؤ کی مسلم سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار آصف رضا کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں مسلم ووٹر مغربی بنگال کی طرز پر ووٹ دیں گے۔ یوپی میں مسلمانوں کا صرف ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ وہ بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکیں۔ ایسی صورت حال میں ، کانگریس مسلم کانفرنس منعقد کر رہی ہے ، لیکن اس کا مسلم سیاست پر کوئی خاص سیاسی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔ یوپی میں مسلمانوں نے اپنا مزاج بنا لیا ہے اور کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ مسلمان یہ بھی سمجھ رہا ہے کہ ایس پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا ہے۔ اس کے بھی ووٹ دینے کے موڈ میں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست کی تمام جماعتیں مسلمانوں کا ووٹ چاہتی ہیں۔ ایس پی تنظیم میں قومی اقلیتی سیل ہے ، لیکن 2019 کے انتخابات کے بعد سے اکھلیش یادو ایس پی اقلیتی سیل کا ریاستی صدر مقرر نہیں کر سکے ہیں۔ یوپی میں ایس پی اقلیتی سیل کا ریاستی صدر بھی نہیں ہے۔ بی ایس پی میں کوئی اقلیتی سیل نہیں ہے۔ یوپی میں کانگریس اور بی جے پی کے اقلیتی سیل ہیں۔ کانگریس لیڈر نے ایس پی قیادت پر پسماندہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور پسماندگی کے نام پر صرف ایک خاص ذات کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)