تحریر : مسعود جاوید
مسلمانانِ ہند کو جن پر ناز ہے وہ ہیں مسلم ایلیٹ … کتنے فخر سے کہتے ہیں کہ فلاں صاحب صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ ، مرکزی وزیر، وزیر ، ایم پی ایم ایل اے، پارٹی جنرل سکریٹری، پارٹی میں فلاں شعبہ کے انچارج ہیں۔
کتنا فخر کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سبھی پنکچر بنانے والے ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ، نامور ججز، لائق و فائق وکلاء ہیں، یونیورسٹیوں کے چانسلر اور وائس چانسلر ہیں ، پولیٹکل سائنس کے نامور پروفیسر ، بین الاقوامی سیاست کے ماہرین ہیں، ہندوستانی آئین اور قوانین کے شارحین ہیں، انگریزی میں لکھنے والے اچھے مضمون نگار ، تجزیہ نگار ، صحافی، مصنف اور مؤلف ہیں۔
ہر ذی شعور انسان اپنے اردگرد ہونے والے واقعات، حادثات اور اچھی بری تبدیلیوں کو محسوس کرتا ہے ان سے متاثر ہوتا ہے اور اس سے خوش، ناراض، پوری طرح مطمئن ضمنی طور پر مطمئن یا مطلقاً اتفاق نہ کرنا فطری عمل ہے۔ اس کا اظہار کبھی وہ کھل کر اور کبھی دل ہی دل میں کرتا ہے۔
انسان کا ردعمل اس کے علم تجربہ اور شعور کے مطابق متفاوت ہوتا ہے۔ عام انسان بادی النظر میں جو کچھ دیکھتا ہے اس پر بیشتر اوقات جذباتی انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ تعلیم یافتہ حضرات کی نظر تاریخی پس منظر پر جاتی ہے اور اسی کے مطابق وہ اظہار خیال کرتے ہیں دانشور حضرات کی نگہ بلند اور جان دلسوز بین السطور پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ان کی رائے کی وقعت اوروں سے زیادہ ہوتی ہے۔
ملکی قومی اور بہت سے عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے تقریباً ہر شخص متاثر ہوتا ہے۔ اور اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔
ایک تو یہ کہ انسانیت ایک برادری ہے اسی لیے انسانیت کی بہبودی کے لئے تعمیر وترقی، تعلیم و صحت کے میدان میں بہتری اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ایجادات دنیا میں کہیں بھی ہو خوشی کی لہر چہاردانگ عالم میں پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا کے کسی بھی حصے میں قدرتی آفات اور دیگر ظلم و زیادتی کے واقعات پر دنیا کا ہر’ ‘انسان دوست‘ شخص افسردہ ہوتا ہے ، دعائیں کرتا ہے اور ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ عالمی بھی ہے اور دینی بھی لیکن اصل قضیہ سے کتنے لوگ واقف ہیں۔ میڈیا نے کہہ دیا دہشت گرد عوام بنام امن پسند جمہوری ملک ہم نے مان لیا !
دوسری وجہ دینی اخوت یہ ایک ناقابلِ ترک جذبہ ہے جس کی وجہ سے ارادتاً اور بسا اوقات غیر ارادی طور پر بھی اپنے ہم مذہب کی حصولیابی پر فخر اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی یا قدرتی آفات و مصائب پر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
بیت المقدس ان تین مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس۔ اس بیت المقدس کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانامسلمانان پر فرض ہے ۔ اس کی بے حرمتی مسلمانان عالم کے لئے باعث تشویش ہے۔ امن پسند انسان دوست عالمی برادری اور مسلمانان عالم نے اس کی مذمت کی ہے۔ اس کی صحیح تاریخی صورتحال سے واقف ہونا اور دنیا کو واقف کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔
جہاں تک ملکی سطح پر تعمیر وترقی اور ایجادات کی بات ہے تو ہر محب وطن بلا تفریق مذہب ذات برادری علاقہ جنس اس پر فخر کرتا ہے اور ملک عزیز کے لئے مزید حصولیابی کی تمنا کرتا ہے اور ناخوشگوار واقعات اور قدرتی حادثات سے حفاظت کے لئے دعا کرتا ہے۔
دنیا ایک کرہ ارضی ہے جس میں الگ الگ قومیتیں بستی گئیں سرحدیں دنیا کو مختلف ملکوں میں تقسیم کرتی گئیں۔ اس کے بعد کئی ملکوں میں مختلف زبانوں، تہذیبوں اور مذہبوں کے لوگ آباد ہوئے اور وہ ایک ملک کی ایک قوم ہوتے ہوئے بھی اپنی الگ الگ شناخت برقرار رکھے ۔
ہر شناخت والوں کے اپنے اپنے مسائل کا ہونا بھی فطری ہے ۔
لسانی، ثقافتی اور دینی شناخت کا تحفظ اس ملت اور دینی گروہ کی مشترک ذمہ داری ہے۔ لسانی ثقافتی اور دینی مسائل کی نوعیت کچھ تو سالہا سال سے برقرار ہیں اور کچھ وقت اور حالات کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں۔
جب یہ مسائل مشترک ہیں تو اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی مشترک ہونی چاہئے اور ہے یہ اور بات ہے کہ بہت سے اہل حضرات اس کا بار اٹھانے سے بھاگتے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ رہا کہ ڈاکٹر ہی علاج بھی کر رہا ہے اور مکانات کی تعمیر ، جو انجینئر کا دائرہ عمل تھا، کی ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہے۔
ہم کریں یا نہ کریں اس سے قطع نظر، دنیا بھر میں ہر میدان میں ہر لمحہ خوب سے خوب تر کے لئے ریسرچ ہوتے رہتے ہیں۔ ریسرچ نے تاجروں کو مارکیٹنگ کی اہمیت اور افادیت بتایا، ریسرچ نے بتایا کہ اللہ نے ہر شخص کو الگ الگ ذہانت اور قابلیت سے نوازا ہے اس لیے جو جس کا اہل ہے اور جس نے جس میدان میں اختصاص حاصل کیا ہے اسے وہ کام سونپا جائے۔ ریسرچ نے کارپوریٹ کو بزنس ایڈمنسٹریشن کی اہمیت بتائی تو وہ ایم بی اے کو ہائیر کرنے لگے، فیکٹری کو کیس اسٹڈی کی افادیت بتایا وہ ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق ایک ہی پروڈکٹ کو مختلف اجزاء ترکیبی سے بنانا شروع کیا۔
بدقسمتی سے دینی مدارس اور زیادہ ترملی اداروں کو ایسے ہر ریسرچ سے الرجی ہے۔ جس طرح مدارس نے آج تک معلم کے لئے ٹرینڈ ٹیچر کی شرط ضروری نہیں سمجھا اسی طرح ملی اداروں میں ہرشخص کو ہر فن مولیٰ سمجھ لیا گیا۔ عموماً انتخاب کرنے ، تقرری کرنے ایمپلائمنٹ، ڈیموشن اور پروموشن کے لئے حضرت کی خوشنودی کو معیار قرار دیا گیا۔ چنانچہ وہ لوگ جنہوں نے ہسٹری پڑھی اور نہ پولیٹکل سائنس جنہوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن پڑھا نا سماجیات وہ ہر جگہ فٹ کر دی گئی اور ملت چاہتی ہے کہ رزلٹ اچھا ہو۔
دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ بین الاقوامی سیاست ، ملکی سیاست اور دستور و قوانین کے ماہرین مسلم شخصیات ، موجودہ اور ریٹائرڈ ، جو ملکی اور بین الاقوامی بالخصوص ملت اسلامیہ سے متعلق مسائل پر اپنی رائے ظاہر کرنے، مضامین لکھنے، سیمینار و سمپوزیم منعقد کر کے رائے عامہ بنانے اور اعدادوشمار اور ریفرنس کے ساتھ دفاع کرنے کے اہل ہیں اور اپنی بات عوام اور دنیا کے سامنے رکھنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں وہ سامنے نہیں آتے۔
اگر مین اسٹریم میڈیا اسپیس نہیں دیتا ہے تو نہ دے الجزیرہ اور ٹی آر ٹی، اور وہ بھی نہیں تو سوشل میڈیا ہر ایک کے لئے مہیا ہے پھر بھی شاید وہ ریزروڈ کمپارٹمنٹ میں بیٹھے ہیں دوسرے سفر کے لئے پریشان ہوتے ہیں تو ہوں انہیں کیا۔
ہاں ان میں ایک نام جو سب سے نمایاں ہے وہ ہے نیشنل اکیڈمی آف لیگل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ NALSAR کے وائس چانسلر محترم جناب فیضان مصطفیٰ صاحب۔ ملت اسلامیہ ہند کو ان کا ممنون ہونا چاہیے اور بلا شبہ مجھے ان پر فخر ہے کہ یہ سروس میں رہتے ہوئے بدون خوف لومة لائم قانونی نقطہ نظر سے نہ صرف رہنمائی کرتے ہیں بلکہ دفاع بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے فیلڈ کے ماہر ہیں اور اسی کے مطابق اپنی رائے رکھتے ہیں مسائل کے قانونی پہلو کیا ہیں ان پر کب کیسا اور کتنا ردعمل ہونا چاہیے اس جانب رہنمائی کرتے ہیں۔
یہ دور سوشل میڈیا کا ہے۔ سوشل میڈیا کے رتھ پر سوار ہوکر ہی بی جے پی نے کانگریس اور تقریباً سبھی ‘ سیکولر پارٹیوں‘ سے ہندوستان کو مکت کیا۔ ان کی ٹول کٹ پر بھیجے گئے میسجزعوام میں اتنا معتبر ہوتے ہیں کہ ان کو پڑھنے والے حوالہ جات کے ساتھ پیش کئے گئے تاریخی حقائق کو بھی سننے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ چند سو میسجز مخصوص گروپس میں پھیلتے ہوئے لاکھوں افراد تک پہنچ جاتے ہیں اور وہی حرف آخر ہوتے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ آپ کو کس نے روکا…..
’ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں،! آپ ذی شعور تو ہیں
ہم اسمارٹ فون اور اس کے متعدد استعمال سے واقف نہیں ہیں ! آپ ارادہ تو کریں بائٹ لینے والے، انٹرویو لینے والے اور ایکسپرٹ اوپینین لینے والے آپ کے دروازے پر پہنچیں گے۔
ہر گام پہ تقدیر سہارا دے گی
منزل پہ پہنچنے کا ارادہ تو کرو
اذا الشعب يوما اراد الحياة
فلا بد أن يستجيب القدر