تحریر: شکیل رشید (ایڈیٹر،ممبئی اردونیوز)
منوّر رانا بھی سب کی آنکھیں نَم کر کے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ ’ بھی ‘ لفظ کا استعمال اس لیے کہ کچھ پہلے ہی راحت اندوری بھی سب کو رُلا کر چلے گیے ہیں ، دونوں ایک ہی مزاج کے شاعر تھے ، حق کہتے ہوئے نہ ڈرنے والے اور نہ کسی کے دباؤ میں آنے والے ۔ منور رانا کی موت اس ازلی سچ کی ایک مثال ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن جانا ہے ، سب کے دن طئے ہیں ۔ لہذا ، اگر یہ قبول کرلیا جائے تو دل کو قدرے قرار آجائے گا ، کہ منور رانا کے لیے قدرت نے اتنے ہی دن لکھے تھے ۔ کون تھے منور رانا ؟ اس سوال کا جواب تو سب ہی جانتے ہیں ، وہ ایک شاعر تھے ۔ لیکن اس سوال کا ایک اور جواب ہے ، وہ شاعر تو تھے لیکن وہ ایک باغی بھی تھے ، اور انسانی قدروں پر مکمل یقین ان کی ایک بڑی صفت تھی ۔ ان کے تن میں ایک ایسا دِل تھا جو اس ملک کے لیے ، اس ملک کی مٹی کے لیے ، جو ماں کے لیے ، چاہے جس کی ماں ہو ، جو اس ملک کے غریبوں کے لیے ، ٹرین کے ڈبوں میں جھاڑو لگانے والے بچوں کے لیے ، دھڑکتا تھا ، جو فرقہ پرستی کا شدید ترین مخالف تھا ، جو فسطائیت پر حملے کرنے میں پیچھے نہیں رہتا تھا ، جو اس ملک کے روایتی بھائی چارے ، ہندو مسلم یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کا پرچارک تھا ۔
منور رانا کوئی غیر معمولی شاعر نہیں تھے ، لیکن اپنی زمین اور اپنی دھرتی سے اس طرح وابستہ تھے کہ آج کا کوئی اور شاعر اس طرح اپنی زمین اور دھرتی سے وابستہ نظر نہیں آتا ۔ یقیناً مذکورہ صفات کے حامل شاعر کی موت پر آنکھیں نم تو ہوں گی ہی ، لوگ غمگین تو ہوں گے ہی ۔ منور رانا زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے ، جدوجہد سے مراد مالی جدوجہد نہیں ہے ، اس سے مراد اپنی شاعری کے ذریعے دِلوں میں پیدا ہونے والی دوریوں کو پاٹنا ہے ۔ مرحوم نے کبھی بھی اقتدار پر متمکن افراد کے تلوے نہیں چاٹے ، جب سچ کہنے کا وقت آیا انہوں نے سچ کہا ، دوسروں کی طرح جی حضوری نہیں کی ۔ کہتے ہیں کہ منور رانا نے کئی تنازعے چھیڑے ! نہیں یہ کہنا درست نہیں ہے ، انہوں نے یہی تو کیا کہ دادری میں جب اخلاق کو ہجومی تشدد میں قتل کیا گیا تو اس کے خلاف آواز اٹھائی ، انہوں نے یہی تو کہا کہ وہ یوگی آدتیہ ناتھ کی جیت پر اترپردیش سے ہجرت کر لیں گے ، انہوں نے بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لیے سونپے جانے کے سابق چیف جسٹس گگوئی کے فیصلے کو غلط ہی تو کہا ، انہوں نے این آر سی کے خلاف وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ پر تنقید ہی تو کی تھی ! کسی خاطی کو خاطی کہنا کیا غلط ہے ؟ یقیناً نہیں ۔ انہوں نے ایک ایسے دور میں جب سب کی زبانوں پر تالے پڑے ہوئے تھے اُن تمام حقوق پر عمل کیا جو اس ملک کا آئین انہیں ، بلکہ سارے ہندوستانیوں کو دیتا ہے ، یہ کوئی جرم نہیں تھا ، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے مذکورہ معاملات میں بیانات متنازعہ تھے ۔ ان میں ہمت تھی ، جرأت تھی ، اسی لیے انہوں نے ’ ساہتیہ اکادمی ‘ کا ایوارڈ لوٹا دیا تھا ، یہ ایوارڈ واپسی اخلاق کی غیرانسانی ’ ماب لنچنگ ‘ کے خلاف تھی ۔ منور رانا کو اپنے ملک سے ، اپنے دیش اور اپنی مٹی سے بے انتہا پیار تھا ؎
جسم پر مٹی مَلیں گے، پاک ہوجائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہوجائیں گے ہم
وطن کے لیے وہ ہر اس فرد سے ، جو وطن کے نام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا تھا ، لڑ جاتے تھے ، چاہے وہ وزیراعظم مودی اور وزیراعلیٰ یوگی ہی کیوں نہ ہوتے ۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ مودی کو ہندوستانی مسلمانوں کی آہیں سنائی نہیں دیتیں ۔ یوگی پر بھی انہوں نے سخت ترین تنقید کی تھی ۔ اب شاید ہی اردو زبان کا کوئی شاعر اس قدر سخت لہجے میں حکمرانوں سے بات کر سکے ! منور رانا کا جانا اردو زبان اور اردو شاعری کا ایک بڑا نقصان تو ہے ہی کہ مٹی سے وابستہ شاعری کرنے والے بہت کم رہ گیے ہیں ، لیکن ان کا جانا اس معنی میں ایک بڑا نقصان ہے کہ فرقہ پرستی اور فسطائیت کے خلاف ایک توانا آواز خاموش ہوگئی ہے ۔ منور رانا کوئی علامہ اقبال یا غالب نہیں تھے ، لیکن ان کی مقبولیت اور ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے غم میں وہ بھی شریک ہیں جن پر انہوں نے تنقیدیں کی تھیں ، پی ایم مودی نے بھی ان کے لیے تعزیتی کلمات کہے ہیں ۔ اللہ منور رانا کی مغفرت کرے ، آمین ۔