رام پور:دنیا میں ہر شخص خاص ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اصل خاصیت یہ ہے کہ بندہ اللہ کا خاص بندہ بن جائے۔ یہ خصوصیت تمام خصوصیتوں پر بھاری ہے۔ جب بندہ اللہ کا خاص ہو جاتا ہے تواللہ تعالیٰ فرشتوں کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں اس بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر صرف فرشتوں ہی میں نہیں، بلکہ کائنات کی ہر شے کے اندر اس شخص کے لئے محبت بھر دی جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مدرسہ مصباح العلوم کےمہتمم اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا انصار احمد قاسمی نے ہولی کے موقع پر آن لائن خطاب کے دوران کیا۔ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فرقان کے آخری رکوع میں اپنے خاص بندوں کی خصوصیات کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ انھوں نے کہا اللہ کے خاص بندے وہ ہیں جو انکساری اختیار کرتے ہیں اور ان کے کسی بھی فعل اور انداز سے تکبر اور بڑائی کی بو تک نہیں آتی ہے۔ مولانا انصار نے کہا کہ اگر کوئی خود کو اس لئے چھوٹا سمجھے کہ دوسرے اسے بڑا سمجھے، یہ بھی تکبر ہی کی ایک قسم ہے۔ انکساری اختیار کرنا ہے تو اللہ کی خاطر کرنا ہے۔ تکبر کسی کو قبول نہیں کرنےدیتا، یہ حلال سے حرام کی طرف لے کر جاتا ہے۔ تکبر کرنے والا تکبر کی سزا پوری کیے بغیر جنت میں نہیں جا سکے گا۔ مولانا انصار احمد قاسمی نے کہا تکبر ، حسد یا کسی برائی کا دل میں آنا برا نہیں، البتہ اس کے تقاضوں پر عمل کرنا موجب گناہ ہے۔ تکبر اور حسد سے بچنے کا سہل ترین نسخہ یہ ہے کہ جب کسی کو دیکھ کر حسد یا تکبر پیدا ہو تو اس کے لئے دعا کی جائے۔مولانا انصار احمد نے موجودہ حالات کے تناظر میں اللہ کے خاص بندوں کی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ جاہلوں سے بحث و مباحثہ نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ آج سوشل میڈیا پر اس کی سب سے زیادہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جہاں کسی نے کچھ لکھا اور دوسروں نے تبصرہ کرنا شروع کردیا، حالانکہ جہالت کی بات کو موضوع بحث بنانے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ برائی پر بحث کر کے انسان غلط راستوں پر جاتا ہے، ایک دوسرے کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالتا ہے۔الزام تراشیاں کرتا ہے۔ نوجوان نسل اس وبا میں سب سے زیادہ گرفتار ہے۔ یہ امت کے لئے خطرناک ہے۔انھوں نے کہا یہ بحث و مباحثے میں پڑنے کا وقت نہیں کیونکہ امت اس وقت اس کی متحمل نہیں۔مولانا انصار نے کہا کہ کہیں نہ کہیں والدین کی حیثیت سے بھی ہم سب ناکام ہیں کہ ہم نئی نسل کو وہ معلومات، وہ اخلاق اور وہ اقدار نہیں دے پا رہے ہیں جو انھیں ایک بہتر انسان بننے میں معاون ہوسکیں۔