(نوٹ یوپی کے مدارس میں قومی ترانہ لازمی کرنے سے متعلق سرکاری حکم نامہ پر یہ جن ستہ کا اداریہ ہے جس کو ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ادارہ)
ہر شہری کو اپنی قوم پر فطری اور مناسب طور پر فخر ہوتا ہے۔ حب الوطنی کا جذبہ اسے بچپن سے ہی اپنے اردگرد، گھر والوں اور اسکول سے ملنے لگتا ہے۔ وہ مختلف مواقع پر اپنا قومی ترانہ یا قومی گیت گا کر ملک میں اپنے فخر کا اظہار کرتا ہے۔ قومی ترانہ گانے یا بجانے کے حوالے سے ہر ملک میں قانون موجود ہے۔ ایک مخصوص انداز میں کھڑے ہو کر اس کا احترام کرنا پڑتا ہے۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں ایک خاص برادری کے لوگ قومی ترانہ گانے یا اس کے احترام میں کھڑے ہونے سے اس لئے ہچکچاتے ہیں ان کے صحیفے میں خدا سے اوھر کسی کو نہیں مانا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں قومی ترانہ گانا اور بجانا لازم نہیں کیا گیا ۔ یہ ان کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ گانا چاہتے ہیں یا نہیں۔
لیکن اب اتر پردیش حکومت نے ہر مدرسے میں روزانہ دعائیہ تقریب کے بعد قومی ترانہ گانا لازمی قرار دے دیا ہے۔ا سکولوں میں نئے سیشن کا آغاز ہو گیا ہے اور اس اصول کو فوری طور پر نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ حکم تمام سرکاری امداد یافتہ یا غیر امداد یافتہ مدارس پر لاگو ہوگا۔ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ حکم بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرے گا ۔
تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ قومی ترانہ یا قومی گیت گانے کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیا گیا ہو۔ چند سال قبل سینما گھروں میں فلم شروع ہونے سے قبل ہی قومی ترانہ بجانے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ لیکن بہت سے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ یہ معاملہ عدالت میں بھی گیا تھا، لیکن عدالت نے اس حکم میں کسی قانونی رکاوٹ کو نوٹ نہیں کیا تھا۔
اسی طرح اقلیتی برادری نے قومی گیت یعنی وندے ماترم گانے پر اعتراض کیا تھا کہ چونکہ ان کے صحیفہ میں خدا کے علاوہ کسی اور کے آگے سر نہ جھکانے کی بات کہی گئی ہے ، اس لیے ان پر یہ گانا گانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔ لیکن قومی ترانہ یعنی جن گنا من گانے پر کسی کو اعتراض کیوں؟ اس حکم کو سیاسی نقطہ نظر سے بھی نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہر شہری کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اپنا قومی ترانہ فخر سے گائے۔ جس طرح دیگر قومی علامتیں ہماری پہچان بنتی ہیں، اسی طرح قومی ترانہ بھی ہماری پہچان ہے۔ اسے مذہب کی راہ میں رکاوٹ کیوں سمجھا جائے؟
لیکن ان دنوں جس طرح سے ہماری سیاست ہر چیز کو ذات، مذہب، برادری کے پیمانے پر ناپتی نظر آرہی ہے، اپوزیشن جماعتیں اس فیصلے کو سیاسی رنگ دیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ جو جماعتیں اسی طرح اپنی حمایت کی بنیاد بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، ان کے لیے یہ ایک آسان مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر قومی ترانے کے حوالے سے سیاست ہوگی تو اسے ملک کی امیج کے ساتھ مذاق کہا جائے گا۔
جب مدارس کی بات آتی ہے تو وہ اس میں کیوں ہچکچاتے ہیں؟ کسی بھی ملک میں قومی شناخت کو اس طرح مذہبی شناخت سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا۔ کوئی صحیفہ نہیں کہتا کہ قوم پر فخر کرنا خدا کی توہین ہے۔ پرانے اور فرسودہ عقائد و تصورات کو توڑنا ترقی کی علامت ہے۔ بہت سی اقلیتیں بڑے فخر سے قومی ترانہ گاتی ہوئی پائی جائیں گی۔ پھر مدارس اس سے کیوں دور رہیں؟ انہیں بھی بدلتے وقت کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہیے۔ قوم کا غرور فخر کی بات ہے، شرم کی نہیں۔
(بشکریہ : جن ستہ )