کلیم الحفیظ -نئی دہلی
آج کے سیاسی منظر نامے پرخدمت قوم اور سیاست کے الفاظ ایک دوسرے کی ضد دکھائی دیتے ہیں ،حالانکہ خدمت قوم و ملک کے نام پر ہی ساری سیاست ہوتی ہے۔ہرسیاست داں خدمت کرنا چاہتا ہے۔آپ کسی سے بھی معلوم کرلیجیے کہ ’’جناب آپ سیاست میں کیوں آرہے ہیں ؟‘‘جواب ہوگا ۔قوم کی خدمت کرنے کے لیے ۔لیکن جب آپ سیاست دانوں کے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں گے تو قوم کی خدمت کا دم بھرنے والے یہ خادم ،مخدوم نظر آئیں گے۔میں گزشتہ بیس تیس سال سے سیاسی افراد کی دن بھر سیاست کے نام پرجو سرگرمیاں دیکھ رہا ہوں وہ اس کے سوا کیا ہے کہ نیتا جی کے دالان اور کوٹھی پر ہر شام لوگ جمع ہوتے ہیں،چائے اور حقہ پیتے ہیں،اِدھر اور اُدھر کی باتیں لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔یا یہ کہ کسی کے نالائق بیٹے کو پولس پکڑ کر لے جاتی ہے اور نیتا جی اسے چھڑواکر لاتے ہیں،کہیں نیتا جی کا استعمال گلی ،محلے کے تنازعات کو حل کرانے میں کیا جاتا ہے جہاں نیتا جی اپنے ووٹوں کو دھیان میں رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔اگر کوئی حکمراں جماعت کا لیڈر ہے تو اس کا ایک استعمال مختلف دوکانوں اور پروگراموں کا فیتا کاٹ کر افتتاح کرنا بھی ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ افراد اپنی سوسائٹی ،ٹرسٹ اور اسکول کے نام پر داہنے ہاتھ سے لیتے ہیں اور اس میں سے قابل قدرحصہ بائیں ہاتھ سے واپس کردیتے ہیں اور لینے دینے والے دونوں کا کام ہوجاتا ہے،نیتا جی کی بلیک منی دودھ کی طرح سفید ہوجاتی ہے۔ابھی حال ہی میں اترپردیش کے وزیر تعلیم ستیش چندنے غریبوں کے کوٹے میں اپنے ہی بھائی کا تقرر کرادیا، نتیجتاًبھائی کی محبت میں لعن طعن سننا پڑی ۔غرض خدمت کے نام پر کرپشن اور بدعنوانی کا وہ کھیل ہورہا ہے کہ اب خدمت کا لفظ بولتے ہوئے ڈرلگتا ہے۔اس کے علاوہ انتخابی موسم میں نعرے،ریلیاں،جلسے،جلوس بھی سیاست کی کارکردگی میںشمار ہوتے ہیں۔جس میں خدمت قوم کا راگ ببانگ دہل الاپا جاتاہے۔میں مذکورہ تمام کاموں سے اتفاق رکھتا ہوں اگر ان میں بدعنوانی نہ ہو،مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر کوئی بے گناہ کو پولس سے چھڑانے کا کام کرے یا مجرموں سے توبہ کرائے۔لیکن کیا سیاست اسی کا نام ہے؟کیاسماج میں انصاف کا قیام ،معاشرے کی ضروریات کا انتظام سیاست کا حصہ نہیں ہیں؟یہ باتیں میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جب میں نے سیاست میں قدم رکھا اور زمین پر کام کرنے کے لیے تعلیم ،صحت اور روزگار فراہمی کا پروگرام بنایا،جب میں نے کہا کہ مریضوں کی عیادت اور مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے تو میرے کچھ خیر خواہوں نے کہا کہ یہ کام سیاسی پارٹی کے کرنے کے نہیں ہیں بلکہ یہ کام این جی اوکرتی ہیں۔
دراصل اس وقت ہمارے ملک میں سیاست اور سماجی خدمت کے شعبے الگ الگ ہوگئے ہیں ۔کچھ سماجی تنظیمیں اور این جی اوز ہیں جو اسکول ،اسپتال قائم کررہی ہیں یا اسکالر شپ اور وظائف تقسیم کررہی ہیں اور سیاسی پارٹیاں سیاست کے نام وہ کررہی ہیں جس کا ذکر میں نے اوپر کیاہے۔عوام کا مزاج بھی کچھ ایسا ہی ہوگیا ہے ،وہ لاکھوں روپے کا راشن بانٹنے والوں کو لیڈر نہیں بناتے بلکہ شراب بانٹنے والوں کو اپنا لیڈر بنا تے ہیں ،وہ سماج میں نفرت پیدا کرنے والوں اور آگ لگانے والوں کو اپنا ووٹ دیتے ہیں لیکن اپنی بستی کے شریف انسان کی صرف تعریف کرکے رہ جاتے ہیں۔سینکڑوں اسکول اور کالج قائم کرنے والی شخصیتیں صرف سپاس نامے کی حق دار قرار پاتی ہیں اور سینکڑوں اسکولوں میں غبن کرنے والے وزیر تعلیم بن جاتے ہیں۔میرے سامنے ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔ہر اسٹیٹ میں سماجی خدمت کرنے والوں کے ساتھ یہی ہورہا ہے کہ وہ اسٹیج کی زینت تو بنائے جارہے ہیں لیکن ایوانوں کی زینت بنانے کی جانب کوئی توجہ نہیں ہے ۔مجھے بتائیے اگر الامین کے بانی ڈاکٹر ممتازمرحوم کو ہم ایوان میں پہنچادیتے تو ہمارے تعلیمی نظام میں ایک انقلاب نہ آجاتا ۔؟جو شخص بغیر سرکاری امدادکے ڈھائی سو تعلیمی ادارے بنا سکتا ہے وہ حکومت میں رہ کر ڈھائی لاکھ تعلیمی ادارے نہ بناتا۔ایسی بہت سی شخصیتیں آج بھی ہیں،مجھے ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔انھیں آپ خود دیکھ سکتے ہیں،ان کے دل ہمارے نقصان پر تکلیف محسوس کرتے ہیں،وہ اپنے اداروں کو بنانے اور عوام کی خدمت میں اپنی زندگی لگادیتے ہیں۔ جب تک عوام اپنا مزاج نہیں بدلے گی لیڈر نہیں بدلیں گے ۔یا تو سماجی خدمت گاروں کو انتخابی سیاست میں آنا چاہئے یا سیاست دانوں کو خدمت خلق کے مفھوم کو سمجھنا چاہئے۔
سوشل پالٹکس کی بہترین مثالیں آپ کو مصر اور ترکی میں مل جائیں گی ۔مصر میں اخوان المسلمون اور ترکی میں طیب اردگان کی پارٹی نے سماجی خدمت کے میدانوں میں اپنے وقت کی حکومتوں سے بھی زیادہ منظم اور بڑا کام کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کی عوام نے جب جب انھیں آزادانہ انتخاب کا موقع ملا ہے ان دونوں کو ایوان میں پہنچایا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ سماجی خدمت کا کام کرنے والے اٹھیں اور انتخابی سیاست میں شامل ہوکر وسائل کا صحیح استعمال کریں۔اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو حالات مزید تباہ کن ہوجائیں گے ۔کرپشن جس حد تک موجودہ سیاست کی رگوں میں پیوست ہوگیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ اب حکومت کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں آنا چاہئے جن کے سینے میں دل دھڑکتا ہو۔جن کی آنکھیں مظلوم کے آنسو نہ دیکھ سکتی ہوں،جن کے ضمیر زندہ ہوں اورغریبوں کے غم کے بوجھ سے دبے جاتے ہوں۔جن کا مذہب تفریق رنگ و نسل کی تعلیمات سے پاک ہو۔اس لیے کہ آج ملک میں ایک طرف غربت اور بے روزگاری کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے اور دوسری طرف دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے اس صورت حال میں وہ دن دور نہیں جب عوام کو کھانے کے لیے زہر بھی آسانی سے نہیں ملے گا۔کتنے ہی نیرو مودی ملک کی دولت لوٹ کر فرار ہوگئے،کتنے ہی بد عنوان سیاست دانوں کا مال سوئز بنکوں میں جمع ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اڈانی اور امبانی ملک سے فرار نہیں ہوں گے،گزشتہ سات سال سے سیاست کے جو غیر انسانی رنگ ہم نے دیکھے ہیں اگر وہ آئندہ نہیں دیکھنے ہیں تو دو ہی راستے ہیں یا تو ہم اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالیں یا پھر میدان سیاست میں داخل ہوکر سماجی خدمت کے کاموں کے فائدوں کو عام انسان تک پہنچائیں ۔میری گزارش ہے ان پاک نفوس سے جو ابھی اپنے اپنے مقدس دائروں بیٹھ کرقوم اور ملک کا تماشا دیکھ رہے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور خدمت خلق کے جو کام، وہ بغیر اقتدار کے انجام دے رہے ہیں انھیں اقتدار کی طاقت اور دولت سے مزید جلا بخشیں۔ایوان سیاست میں براجمان نیتائوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے رہنما ہونے کے فرض کو سمجھیں،سیاست صرف تصویر چھپوانے کا نام نہیں ہے ،برائے کرم فوٹو گیلری سے باہر آئیں۔سماج کی ضروریات کے پیش نظر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں،آپ قوم کے خادم ہیں،خدمت کو شیوہ بنائیں،اپنے سیاسی حلقے میں تعلیم اور صحت کے ادارے قائم کریں،جہالت،غربت او ربے روزگاری دورکرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں۔صرف نوٹ کی طاقت سے ووٹ حاصل نہ کریں بلکہ خدمت کے بدلے ووٹ کی پالیسی اپنائیں۔ آخر یہ ملک بھی آپ کا ہے،یہ عوام بھی آپ کی ہے اور آپ کے پاس جو طاقت ہے وہ بھی عوام ہی کی ہے ۔
خدمت قوم و وطن ہی تھی سیاست بھی کبھی
رہ گیا ہے اب فقط تصویر چھپوانے کا نام