نئی دہلی:
حکومت نے منگل کو کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس حراست میں 348 لوگوں کی موت ہوئی اور یہ بھی پایا کہ اسی مدت میں حراست میں 1,189لوگوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نیتانند رائے نے لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں جانکاری دی۔
انہوں نے بتایا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن سے موصولہ اطلاع کے مطابق 2018 میں پولیس حراست میں 136لوگوں کی موت ہوئی تو 2019 میں 112 اور 2020 میں 100 لوگوںکی جان گئی۔ آؤٹ لک کے مطابق لوک سبھا میں وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایاکہ 2017 سے 2019 کے درمیان سیاسی وجوہات کی بنا پر ملک کے مختلف حصوں میں 230 لوگ مارے گئے۔
انہوں نے ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے کہاکہ 2017-19کے درمیان حراست کے دوران 1,189لوگوں کو تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ اس میں سال 2018 میں 542 لوگوں کو پولیس حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ وہیں 2019 میں 411 اور 2020 میں 236
لوگوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا۔
لوک سبھا میں وزیر نے بتایا کہ 2017 سے 2019 کے درمیان سیاسی وجوہات کی بنا پر ملک کے مختلف حصوں میں 230 لوگ مارے گئے۔ رائے نے کہاکہ سیاسی وجوہات سے مارے گئے لوگوں میں جھارکھنڈ میں 49، مغربی بنگال میں 27 اور بہار میں 26 معاملے شامل ہیں، جبکہ 2017 میں سیاسی وجوہات سے ملک میں 99 لوگ مارے گئے تھے۔ 2018 میں 59 لوگ اور 2019میں 72 لوگ مارے گئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ 2017 سے 2019 کے درمیان سیاسی قتل کے کرناٹک میں کل 24 اور کیرل اور مہاراشٹر میں 15-15معالے درج کئے گئے۔
ٹائمس آف انڈیا کے مطابق شیلانگ سے رکن پارلیمنٹ کارتک چدمبرم نے کووڈ 19-لاک ڈاؤن کو لاگو کرنے کے دوران شہریوں کے خلاف ہوئے پولیس تشدد سے متعلق بھی سوال کیا تھا۔ رائے نے یہ بھی کہاکہ پولیس اور امن وامان آئین کی ساتویں شیڈول کے مطابق ریاست کاموضوع ہے ۔ قانون وانتظام بنائےرکھنے کی ذمہ داری ریاستوں کی ہے ، جس میں جرائم کی جانچ، رجسٹریشن اور استغاثہ، ملزمین کی سزا ،جان ومال کا تحفظ شامل ہے۔ پولیس حراست میں ہوئی اموات اور تشدد کے لیے پولیس افسران کے خلاف کی گئی کارروائی کی تفصیلات مانگنے پر وزارت داخلہ نے دہرایا ’پولیس ‘ اور پبلک آرڈر ریاستی موضوع ہے اس لئے ریاستی سرکاروں کو ایسے جرائم سے نمٹنے کا اختیار ہے ، جو قانون کے موجودہ التزامات کے مطابق ان کے نوٹس میں آتے ہیں۔