احمد آباد :(ایجنسی)
گجرات میں وڈودرا، راجکوٹ، بھاونگر اور جوناگڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتداربلدیہ نے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گوشت اور انڈے سے تیار کردہ کھانا بیچنے والے ٹھیلوں اور دکانداروں کے خلاف مہم شروع کر دی ہے۔
بلدیہ نے دکانداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ یا تو اپنی دکانوں میں نان ویج اشیا کی فروخت بند کر دیں یا انھیں ڈھک کر رکھیں تاکہ سڑک پر سے گزرنے والے یا فٹ پاتھ پر چلنے والے افراد کو نظر نہ آئیں۔ بلدیہ کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
خبروں کے مطابق حالانکہ کوئی باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن بلدیہ کے منتخب شعبوں نے زبانی طور پر عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سڑکوں پر نان ویج کھانا اور انڈے عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہیں۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق گجرات بی جے پی کے ریاستی صدر سی آر پاٹل نے ان تمام فیصلوں کو ذاتی فیصلے قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی بی جے پی کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے وڈودرا اور راجکوٹ کے بلدیاتی اداروں سے بات کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ نان ویج فوڈ کے ٹھیلوں کو سڑکوں سے نہ ہٹائیں۔ یہ لیڈروں کی ذاتی رائے تھی۔ ہم اسے پوری ریاست میں نافذ نہیں کریں گے۔‘
تاہم اس مسئلے پر تنازع کے بعد گجرات کے وزیر برائے آمدنی راجندر ترویدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو بھی فٹ پاتھ پر ٹھیلے کھڑے کرنے کا حق نہیں ہے۔ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے ہے۔‘ انھوں نے اس فیصلے پر بلدیات کے میئرز کو بھی مبارکباد دی ہے۔
وڈودرا کی ڈپٹی میئر نندابہن جوشی نے تنازع کے بعد ہفتہ کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورتیں اور بچے سرِ عام نان ویج ڈشز پکنے سے آنکھوں میں جلن کی شکایت کر رہے ہیں۔
حالانکہ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق وڈودرا میں 24 گھنٹے کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور نان ویج اور انڈے بیچنے والے ٹھیلے فی الحال بند نہیں کیے گئے ہیں لیکن راجکوٹ کے پھول چھاب چوک سے ٹھیلوں کو ہٹانے کی خبریں آئی ہیں۔ ٹھیلوں کو ہٹاتے وقت راجکوٹ کے ڈپٹی کمشنر اے آر سنگھ نے کہا کہ ’لوگ سڑک پر کھڑے ایسے ٹھیلوں کو پسند نہیں کرتے اور اس سے ٹریفک ہوتی ہے۔‘
اس سے پہلے پانچ نومبر کو سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے بھی کہا تھا کہ ’نان ویج کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بائیو وائلنس کی ضرورت نہیں ہے۔ سبزی جسم کو صحت مند رکھتی ہے۔‘
2019 میں جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو انھوں نے سوم ناتھ اور امباجی مندروں کے 500 میٹر ارد گرد کے علاقے کو ’سبزی خور‘ قرار دیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد ریاست میں نان ویج، انڈوں اور فاسٹ فوڈ کے تقریباً 17 لاکھ ٹھیلے والوں نے یہ فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں وڈودرا، راجکوٹ اور جوناگڑھ میونسپل کارپوریشن کے خلاف احتجاج شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حبیب غنی بھائی نے، جن کے بھتیجے کا ٹھیلا ہٹا دیا گیا ہے، بی بی سی کو بتایا کہ ’جہاں ٹھیلے ہٹائے گئے ہیں لوگ وہاں چار یا پانچ دہائیوں سے کاروبار کر رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ گوشت اور سبزی خوری کے نام پر ہندوتوا کی سیاست ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’2022 کے انتخابات آ رہے ہیں اس لیے ہمارے ٹھیلے ہٹائے جا رہے ہیں۔‘
شراب پر پابندی اور سبزی خوری دو ایسے مسائل ہیں جو گجرات میں مسلسل زیر بحث رہتے ہیں۔ گجرات کو ایک ’سبزی خور ریاست‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے حالانکہ یہاں ایک خاصی آبادی گوشت خور بھی ہے۔
2014 کے رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے ذریعے کیے گئے ایک سروے کے مطابق گجرات میں 61.80 فیصد لوگ سبزی خور جبکہ 39.05 فیصد لوگ نان ویج ہیں۔ مشہور ماہر طباخ اور مورخ پشپیش پنت اور دوسرے اسکالرز کا خیال ہے کہ گجرات میں جین مت یا وشنو مت یا فطری عدم تشدد کے رویے کا اثر بہت پہلے سے ہے۔
صحافی ویر سنگھوی لکھتے ہیں کہ ’بھارتکبھی بھی سبزی خور ملک نہیں رہا ہے۔ سبزی خوری کی مقبولیت ہندو روایت سے نہیں بلکہ جین روایت سے آئی ہے۔‘ گجرات میں جین تہوار پریوشن، جس میں سال میں ایک مرتبہ روزہ رکھنے جیسی رسم ہے، کے دوران مذبح خانے بند رکھے جاتے ہیں۔