مودی حکومت نے پارلیمان کو بتایا کہ وادی میں اقلیتوں کی ہلاکت کے حالیہ واقعات کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں کی کوئی نقل مکانی نہیں ہوئی۔ گوکہ 115کشمیری پنڈت کنبے وادی سے جموں منتقل ہوئے لیکن وہ ‘سرکاری نقل و حرکت کا حصہ’ تھے۔
اپوزیشن کانگریس پارٹی کے ایک رکن پارلیمان نے مودی حکومت سے سوال پوچھا تھا کہ آیا متعدد ہندو اور سکھ اپنی جان کو لاحق خدشات اور دیگر اسباب کے پیش نظر وادی کشمیر چھوڑنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں بھارت کے نائب وزیر داخلہ نتیہ نند رائے نے بدھ کے روز پارلیمان کو تحریری طورپر بتایا کہ گزشتہ اکتوبر میں وادی کشمیر سے 115 کنبے جموں منتقل ہوئے۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ لیکن یہ نقل مکانی "سرکاری نقل وحرکت کا حصہ” اور تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کی وجہ سے ہوئی۔
بھارتی نائب وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ سری نگر میں اقلیتوں کی حالیہ ہلاکتوں کے واقعات کا ان کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی کشمیری پنڈت خوف کے سبب وادی چھوڑ کر نہیں گیا اور نہ ہی اقلیتوں کی بڑے پیمانے پر کوئی مہاجرت ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا میں ایسی افواہیں مسلسل پھیلائی جاتی رہی ہیں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دنوں بعض شہریوں کی ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں، ہندووں اور سکھوں کی مہاجرت کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔
رواں برس اکتوبر اور نومبر میں سری نگر میں ٹارگیٹیڈ کلنگ کے 16 واقعات پیش آئے تھے۔ ان حملوں میں ایک اسکول پرنسپل، ٹیچر، کیمسٹ اور سیلز مین اور اترپردیش اور بہار سے تعلق رکھنے والے خوانچہ فروش مارے گئے تھے۔ ان حملوں کی وجہ سے اقلیتی فرقے میں خوف کی لہر پیدا ہوگئی تھی۔ مقامی کشمیریوں نے ان حملوں کی سخت مذمت کی تھی اور اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو ہر ممکن حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی۔