کابل ڈی ڈبلیو)
طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ آخونزادہ کے متعلق اسرار مزید گہرا گیا ہے۔ اب بھی یہ پوری طرح واضح نہیں ہے کہ طالبان کی قیادت کون کر رہا ہے۔ اس دوران ایسی خبریں ہیں کہ "امیرالمونین "نے قندھار میں ایک مدرسے میں خطاب کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے طالبان کے روپوش سپریم لیڈر ہیبت اللہ آخونزادہ کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں پتہ لگانے کی بھرپور کوشش کی تاہم کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکی۔
طالبان کے ترجمان کے اس دعوے کے دو ماہ بعد، کہ آخونزادہ زندہ ہیں اور قندھار میں ہیں، 30 اکتوبر کو یہ افواہ پھیل گئی کہ "امیرالمومنین ” نے قندھار کے ایک مدرسے میں خطاب کیا۔ طالبان کے عہدیداروں نے بھی حکیمیہ مدرسہ میں ان کی تقریر کی تصدیق کی اور تقریباً دس منٹ کی ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی جاری کی۔
اس آڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز آخونزادہ کی ہے۔جس میں وہ کہہ رہے ہیں ” اللہ افغانستان کے مظلوم عوام کو اج عطا کرے جنہوں نے 20 برس تک کافروں اور ظالموں سے مقابلہ کیا”
ماضی میں اسلامی تہواروں کے موقع پر ان کے پیغامات بالعموم تحریری شکل میں ہوتے تھے جو پڑھ کر سنائے جاتے تھے۔
30اکتوبر کے بعد سے ہی مدرسہ حکیمیہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ طالبان حامیوں کی بڑی تعداد اس مدرسے میں پہنچ رہی ہے۔ مدرسے کے نیلے اور سفید گیٹ کے باہر طالبان جنگجو محافظ بھی موجود ہیں
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے طالبان کے بیشتر بڑے رہنما عوامی طورپر بہت کم سامنے آئے۔ امریکا کے اسی طرح کے ایک حملے میں اپنے پیش رو ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد آخونزادہ 2016 میں طالبان کے سپریم لیڈر بنائے گئے۔ انہوں نے جلد ہی القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی حمایت حاصل کرلی، جنہوں نے انہیں "امیرالمومنین "کا لقب دیا۔
طالبان نے گزشتہ پانچ برس کے دوران آخونزادہ کی صرف ایک تصویر جاری کی ہے، جب وہ اس عسکری تنظیم کے سربراہ کا عہدہ سنبھال رہے تھے۔ لیکن طالبان کے مطابق یہ تصویر بھی دو دہائی قبل اتاری گئی تھی۔ اس تصویر میں وہ بھورے بالوں اور سفید پگڑی میں نظر آ رہے ہیں۔