لکھنؤ :(ایجنسی)
ڈاکٹر کفیل خان نے اترپردیش حکومت کےذریعہ گورکھپور کے میڈیکل کالج کی نوکری سے برخاستگی کوعدالت میں چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا۔ اس معاملے کی سماعت لکھنؤ ہائی کورٹ میں ہوگی۔ جمعرات کو جسٹس راجن رائے ان کی عرضی پر سماعت کریں گے۔
گزشتہ سال نومبر میں یوگی حکومت کی جانب سے انہیں نوکری سے ہٹائے جانے کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔ گورکھپور واقع میڈیکل کالج میں بچوں کی موت اور آکسیجن کی کمی کا معاملہ سامنے آیا تو ڈاکٹر کفیل خان پر کئی الزامات لگائے گئے تھے۔
اگست 2017 میں گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی سے 60 سے زائد بچوںکی موت ہوگئی تھی۔ بچوں کےوارڈ میں آکسیجن سپلائی نہیں ہونے کی بات سامنےآئی تھی۔
حکومت نے الزام لگایا تھا کہ ڈاکٹر کفیل یہ جانتے ہوئے کہ صورتحال سنگین ہے، اپنے اعلیٰ افسران کو مطلع نہیں کیا اور فوری اقدامات کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور انہیں جیل بھیج دیا گیاتھا۔ ڈاکٹر کفیل خان کو معطل کر دیا گیا تھا۔ انہیں جیل جانے کے تقریباً آٹھ ماہ بعد اپریل 2018 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دی تھی۔ عدالت نے تب کہا تھا کہ خان کے خلاف میڈیکل کالج میں لاپروائی کا براہ راست کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اس کے بعد آنے والی ہر تحقیقاتی رپورٹ میں ڈاکٹر کفیل خان بے گناہ ثابت ہوتے رہے۔ حکومت نے اس معاملے میں تفتیشی افسر کی جانب سے 15 اپریل 2019 کو داخل کی گئی تحقیقاتی رپورٹ کو قبول کر لیا تھا جس میں ڈاکٹر کفیل خان کو بے قصور پائے گئے تھے۔ اس کے بعد 6 اگست 2021 کو ریاستی حکومت نے 24 فروری 2020 کو دیا گیا محکمانہ انکوائری کا حکم بھی واپس لے لیا تھا۔
لیکن اس دوران گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں خبر آئی کہ ڈاکٹر خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کفیل خان نے ٹویٹ کیا ہے کہ اب انہوں نے اس برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔
عدالت کے سامنے چیلنج میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر کفیل کو یہ کہتے ہوئے برخاست کر دیا گیا تھا کہ وہ 2014 میں پرائیویٹ پریکٹس کر رہے تھے، وہ بھی اس حقیت کے باوجود کہ وہ 2016 میں اگست مہینے میںیوپی پی ایس سی کے ذریعہ نوکری میں شامل ہوئے تھے۔ انہوں نےعرضی میں کہاہے کہ یہ جھوٹا الزام لگایا گیا کہ وہ انسیفلائٹس وارڈ کے انچارج تھے جبکہ انہیں کبھی بھی اس عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر کفیل خان نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی طور پر میرے خلاف طبی غفلت ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پر کوئی مواد موجود نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہائی کورٹ نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ڈاکٹر کفیل اس ٹینڈر کے عمل کا حصہ نہیں تھے۔
ڈاکٹر خان نے یہ بھی کہا ہے کہ اپنے برطرفی کے حکم نامے میں پرنسپل سکریٹری میڈیکل ایجوکیشن آلوک کمار نے اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر کفیل کو 8 اگست 2016 کو پروبیشن پر لیکچرار کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور وہ سب سے جونیئر ڈاکٹر تھے، ان کی کوئی مالی اور انتظامی ذمہ داری نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل 10 اگست کو چھٹی پر تھے اور اس کے باوجود وہ اس حادثے کی رات ہی میڈیکل کالج پہنچے اور ہر ممکن معصوم جان بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے ان 54گھنٹوں میں 500 سلنڈروں کا بندوبست کیا۔