اپادھیائے جیسے لوگوں کو جواب دینے اور بے نقاب کرنے کے بجائے ان کی باتوں کو پھیلانے کی حماقت کا کوئی مطلب نہیں ہے ، اشونی اپادھیائے بی جے پی لیڈر اور سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، ان کا جو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت گر دش کر رہا ہے، اسے ہم نے بھی دیکھا ہے، ویڈیو میں وہ ایک صاحب کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پانچ چیزوں کو ختم کرنا ہے، تین طلاق میں کامیابی ملی، اب تعدد ازواج، حلالہ ،متعہ اور نکاح مسیار کے ختم کرنے پر پوری طاقت لگانی ہے۔
ہم نے ان کو کئی ٹی وی چینلز پر بحث کے لیے چیلنج کیا اور ہمارے سوالات کے وہ جوابات نہیں دے سکے، اپادھیائے کو اپنے دھرم کے بارے میں بھی زیادہ جانکاری نہیں ہے، ہم نے سوال کیا کہ آپ کے وزیر روی شنکر پرساد، آپ اور سارے بھاجپا اور سنگھ کے نمائندے طلاق بائن کی تعریف کر دیں، آپ تو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں آپ ہی بتا دیں، لیکن وہ جواب نہیں دے سکے، نکاح مسیار کسے کہتے ہیں اور وہ زنا کے زمرے میں کیسے آ سکتا ہے،؟ بھارت میں نکاح مسیار کا رواج و چلن کہاں ہے؟ اس کا ان کو کچھ پتا ستا نہیں ہے ،حلالہ کا مطلب کیا ہے،؟ اپادھیائے کی جہالت کی حد یہ ہے کہ نکاح مسیار کو شیعوں سے اور متعہ کو سنیوں سے جوڑ کر بتا رہے ہیں، حلالہ کا مطلب ہے کہ عورت کی دوسرے مرد سے دوسری شادی، اس کے بعد اگر طلاق ہو جائے یا شوہر مر جائے تو پہلے شوہر سے دوبارہ رشتہ ازدواج قائم کرنا حلال اور جائز ہے۔
رہا طلاق دے دینے کے مقصد سے طے شدہ پروگرام کے مطابق نکاح، طلاق تو یہ سب کے نزدیک حرام اور ملعون عمل ہے، لیکن جب تک ازدواجی رشتہ قائم ہے تو جنسی تعلق زنا کے زمرے نہیں آ سکتا ہے، لیکن آپ کے یہاں تو نیوگ رسم کے تحت عورت بغیر شادی ہی غیر مرد سے اولاد حاصل کر سکتی ہے۔ سوامی دیا نند نے ستیارتھ پرکاش میں اس کی زبردست حمایت کی ہے، اپادھیائے نے عقل و شعور سے کام نہیں لیا ہے۔
اسلام نے ایک سے زیادہ شادی کو ضرورت کے وقت صرف جائز قرار دیا ہے، حکم نہیں دیا ہے، سماج میں تین حالتیں ہوتی ہیں، مرد، عورت برابر سرابر ہوں، عورتوں کی تعداد کم ہو، جیسا کہ آج ہے تو ان دونوں صورتوں میں زائد شادی وجود میں نہیں آ سکتی ہے، اگر عورتیں زیادہ ہوں تو تعدد ازواج کے سوا مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب اپادھیائے نے نہیں دیا، اسلام نے مخصوص پیدا شدہ صورت حال کا حل بتایا ہے، اپادھیائے نے سوال کیا ہے کہ پھر عورت کو چار مرد سے شادی کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
اپادھیائے جیسے لوگوں کی پیدائش و پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہے کہ نسل کے تحفظ و شناخت کی اہمیت و معقولیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں، ان کے سامنے پانچوں پانڈوں اور دروپدی کا نمونہ و مثال ہے، اپادھیائے کے سماج میں تقدس و معقولیت، زنا اور ازدواجی رشتے کے بعد جنسی تعلق کی معنویت پر توجہ نہیں ہے، پانچوں پانڈو میں کوئی بھی اپنے اصل باپ پانڈو کی اولاد نہیں ہے، نیوگ اور دیوتا کے ملن کی پیداوار ہیں، خود کورو، پانڈو کے باپ، نیوگ کی پیداوار ہیں، مہابھارت میں اس کی پوری تفصیل ہے۔
راقم سطور نے ’ہندو ازم ،تعارف و مطالعہ‘میں اس پر مہا بھارت کے تعارف کے ذیل میں تھوڑی روشنی ڈالی ہے، ایسی حالت میں اپادھیائے جیسے لوگوں کے لیے نسل کے تحفظ و تقدس کو سمجھنا مشکل ہے، ایک مرد کی ایک سے زیادہ بیوی ہونے کی صورت میں اولاد کے انتساب و شناخت کا کوئی مسئلہ، تنازعہ نہیں ہوتا ہے کہ اولاد کس کی ہے،؟ جب ایک عورت کے کئی شوہر ہونے کی حالت میں اولاد کا انتساب و شناخت کا مسئلہ و تنازع پیدا ہونا طے ہے۔
سپریم کورٹ میں وکالت کرتے ہوئے بھی اپادھیائے صاحب کو اتنی واضح سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک عورت کے چار شوہر اور ایک مرد کی چار بیویاں ہونے میں کیا فرق ہے، اسلام نے معقولیت کے ساتھ مسائل کا حل پیش کیا ہے،نکاح مسیار کا بھارت میں وجود و تصور نہیں ہے، عرب کے کچھ جگہوں پر ہے، اس پر شوہر پر کھانا، خرچ، رہائش کی واجب ذمےداری نہیں ہوتی ہے، متعہ کا بھی ہمارے یہاں کوئی وجود و تصور نہیں ہے، عام چلن کی تو بات دور، مطلب یہ ہے کہ جو مسئلہ نہیں ہے، اپادھیائے جیسے لوگ مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، ایسے لوگوں کی جہالت اور اوقات کو بتانے کی ضرورت ہے، اگر تھوڑا بھی علم و شعور ہو تو کوئی مغالطہ و شبہ میں گرفتار نہیں ہو گا۔