سنبھل سے روزنامہ خبریں کی گراؤنڈ رپورٹ
سنبھلمسلم اکثریتی علاقہ ہے -یہاں سے کبھی مسلم کبھی غیر مسلم لوک سبھا ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اس سیٹ پر سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق مرحوم کے پوتے ضیاء الرحمان برق اتحادی امیدوار ہیں، جب کہ بہوجن سماج پارٹی نے بھی مسلم امیدوار صولت علی کو میدان میں اتارا ہے۔
سنبھل مسلم اکثریتی سیٹ ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پارلیمانی سیٹ پر مسلم ووٹ 50.15,ایس سی 17.50,اور دلت ووٹ تقریبا تین لاکھ ہے -یہ سیٹ پانچ اسمبلی حلقوں بلاری،کندرکی،اسمولی ،سنبھل اور چندوسی پر مشتمل ہے ان میں سے چار پر سماجوادی کا قبضہ ہے 2022کے اسمبلی الیکشن میں کندرکی سے برق صاحب کے ہوتے ضیاالرحمن برق جو گٹھ بندھن کے امیدوار ہیں ممبر اسمبلی ہیں جبکہ بلاری سے محمد فہیم عرفان ،اسمولی سے پنکی سنگھ ،سنبھل سے اقبال محمود (چاروں سماجوادی )اور چندوسی (ریزرو) سے بی جے پی کی گلاب دیوی نے جیت حاصل کی تھی روایتی طور پر سنبھل سماجوادی کا گڑھ رہا ہے ڈاکٹر برق نے 2019 میں بی جے پی کےپرمیشور لال سینی کو ہرایا تھا اس وقت ایس پی -بی ایس پی نے مل کر چناؤ لڑا تھا۔جبکہ 2014 میں مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کی وجہ سے برق صاحب بی جے پی کے مقابلہ ہار گئے تھے اس بار ان کے پوتے کو وراثت کے تحفظ کی ذمہ داری ملی ہے –
لوگوں کا کہنا ہےکہ ان کو ہمدردی کا ووٹ ملے گا- برق صاحب کا مسلمانوں کے علاوہ دیگر کمیونٹی میں زبردست اثر تھا ان کی گرفت بہت مضبوط تھی جس کا فائدہ ضیاالرحمن کو ملے گا بی ایس پی کا مسلم امیدوار بظاہر ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کررہا ہے اس کی نظر تین لاکھ دلت ووٹوں پر ہے ویسے مسلمانوں کا یوپی میں عمومی رجحان گٹھ بندھن کی طرف ہے اور وہ یکسو ہیں
جرنلسٹ سعد نعمانی کا کہنا ہے کہ الیکشن بہت ٹف ہے ،یکطرفہ نہیں ہے صرف مسلم ووٹوں سے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا ۔لوک سبھا کا چناؤ دیہات کا ہوتا ہے ۔کوئی ایک برادری یا کمیونٹی لوک سبھا الیکش نہیں جتاسکتی -ضیاالرحمن دیگر طبقوں کا کتنا ووٹ لا پائیں گے اسی پر الیکشن کا فیصلہ ہوگا
ادھر معروف اسکالر ڈاکٹر نجیب قاسمی کا کہنا ہے کہ گٹھ بندھن ایک لاکھ سے جیت رہا ہے مگر ان کےپاس اس دعوے
کی ٹھوس دلیل نہیں تھی-مولانا عمران قاسمی ن اعدادوشمار کے ساتھ بتایا کہ ضیاالرحمن جیت سکتے ہیں مگر مسلمانوں کے ساتھ دیگر کمیونٹی کی حمایت بہت ضروری ہے بی جے پی سے ناراض ووٹ کدھر جارہا ہے یہ فیکٹر کلیدی رول نبھائے گا ۔
سنبھل کا پڑھا لکھا مسلم نوجوان سیاست میں مسلمانوں کے گھٹتے مقام سے پریشان دکھائی دیتا ہے – ہی۔اے ایم یو اور جامعہ ملیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے ان نوجوانوں کا ماننا ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی کم نمائندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک طرح سے الگ تھلگ کیا جا رہا ہے۔
ایک ریسرچ اسکالر کا کہنا ہے کہ "ساتویں لوک سبھا انتخابات میں 49 مسلم ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئے، 2019 میں صرف 27 مسلمان پارلیمنٹ میں پہنچے۔ آج صورتحال ایسی ہے کہ کوئی بھی پارٹی کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دینا چاہتی۔
ایک مسلم نوجوان، جو صحافت کا طالب علم ہے، کا کہنا ہے کہ "موجودہ سیاسی منظر نامے میں مسلم نوجوان اپنی نمائندگی تلاش کر رہا ہے لیکن اسے نہیں مل پا رہا ہے۔ سیاست میں مسلمان الگ تھلگ ہو رہے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ سیکولر”۔ پارٹیاں مسلمانوں کا نام لینے یا ان کے مسائل پر بات کرنے سے بھی گریز کر رہی ہیں۔
اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً بیس فیصد سمجھی جاتی ہے۔ مسلم نوجوانوں کا کہنا ہے کہ سیکولر سیاست کا دعویٰ کرنے والے حزب اختلاف کے ‘انڈیا’ اتحاد نے بھی آبادی کے لحاظ سے اس طبقے کو ٹکٹ نہیں دیا، دوسری جماعتوں سے اس کی کیا توقع کی جا سکتیہے۔
اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً بیس فیصد سمجھی جاتی ہے۔ مسلم نوجوانوں کا کہنا ہے کہ سیکولر سیاست کا دعویٰ کرنے والے حزب اختلاف کے ‘انڈیا’ اتحاد نے بھی آبادی کے لحاظ سے اس طبقے کو ٹکٹ نہیں دیا، دوسری جماعتوں سے اس کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ملے تو کیا اثر ہو سکتا ہے؟ اس سوال پر ریسرچ اسکالر کا کہنا ہے کہ ’’اس کا سیدھا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے مسائل کو اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔۔
اس سے ظاہر ہے کہ سنبھل کا پڑھا لکھا مسلمان موجودہ سیاست کے اتار چڑھاؤ کو بخوبی سمجھتا ہے اور اس میں اپنی کم ہوتی نمائندگی کو لے کر تشویش ہے ۔موجودہ وقت میں جبکہ سات مئی کو پولنگ ہونے والی ہے ووٹر اپنے دل میں فیصلہ کرچکا ہے ۔برق ووٹروں کو کتنا یکسو کر پائے ہیں یہ سات مئی کو ہی پتہ چلے گا-بی جے پی تین لاکھ دلت اور دو لکھ یادو ووٹوں پر خاص محنت کررہی ہے -دلت ووٹ ہی الیکشن کا فیصلہ کرے گا -ایک بات شدت سے محسوس کی گئی کہ مسلمان بہت خوش فہمی میں ہے –
(کل بدایوں پر گراؤنڈ رپورٹ ملاحظہ کریں)