تحریر: مسعودجاوید
"اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے” ۔۔۔ یہ مصرع نہ صرف زبان زد عام ہے بلکہ ہم میں سے بہت سے لوگ اس کا مشاہدہ بھی کرتے رہے ہیں۔ دو روز قبل روزنامہ سہارا اردو کا ایک تراشہ کسی نے پوسٹ کیا ہے جس میں اترپردیش حج کمیٹی کے ایک رکن حافظ صاحب نے وزیر اعلیٰ کو تبلیغی جماعت کے خلاف خط لکھا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ اس جماعت کی سرگرمیاں مشتبہ ہیں اور یہ بچوں کو گمراہ کر سکتی ہیں اور امن و امان میں رخنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ دینی اور ملی تنظیموں کے ہر کام سے ضروری نہیں آپ متفق ہوں لیکن بہر حال وہ آپ کا بایں معنی ملی اثاثہ ہیں کہ کسی نہ کسی شکل میں ان سے ملک و ملت کو فائدہ پہنچ رہا ہے
۔١- مدارس دینیہ ڈاکٹر انجینئر کمپیوٹر سائنس ایکسپرٹ آئی ٹی پروفیشنل، مرکزی نوکر شاہ آئی اے ایس، آئی پی ایس ، اور ریاستی نوکر شاہ بی ڈی او ، سی او وغیرہ پیدا نہیں کرتے لیکن کم ازکم بالکل ناخواندہ سے بہتر طعام و قیام کے ساتھ دین کی صحیح معلومات اور لکھنا پڑھنا تو سکھاتے ہیں۔ خامیوں کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے اس کے وجود اور افادیت کی یکسر نفی کی نہیں ۔ ٢- تبلیغی جماعت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ تبلیغ تو دراصل غیر مسلموں میں کرنے کا کام ہے لیکن یہ جماعت مسلمانوں میں تبلیغ کرتی ہے ! پہلی بات یہ کہ تبلیغ غیر مسلموں میں کرنے کا ان تک دین اسلام پہنچانے کو کہتے ہیں یہ کہنا سراسر غلط ہے۔ دین اسلام سے ناواقف لوگوں – خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، کو دین اسلام کے بارے میں بتانے کا نام تبلیغ ہے۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بلغوا عني ولو أية ” یعنی میری طرف سے کسی کو اگر ایک آیت بھی ؛ دین کی ایک بات بھی پہنچی ہو تو وہ دوسروں تک پہنچا دے۔
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں :(ا) – لوگوں تک دین کا پیغام پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے یعنی ہم سب تبلیغ کرنے کے لئے مکلف ہیں اور اس کا طریقہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بتایا ہے : ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ یعنی اللہ کے راستے کی طرف حکمت سے اور اچھے ناصحانہ انداز میں لوگوں کو بلاؤ ۔ (ب) – تبلیغ کرنے کے لئے مولوی ، عالم ، فاضل ہونا ضروری نہیں ہے۔ جتنا جسے معلوم ہے اتنے کا وہ عالم دین ہے ۔
اس لئے کل قیامت کے روز ہم اور آپ یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے کہ یہ کام تو مولویوں کا تھا ۔ (ج) ہم رہتی دنیا تک تبلیغ کا کام کرنے کے پابند ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ الوداع میں فرمایا: ” فليبلغ الشاهد الغائب ” جو لوگ یہاں حاضر ہیں اور جن تک ابھی میری بات پہنچ رہی ہے وہ ان لوگوں، جو یہاں حاضر نہیں ہیں ، تک یہ باتیں پہنچا دیں۔ گویا یہ سلسلہ تا قیامت چلتا رہے گا ۔
متشدد لوگ ہر فرقہ اور جماعت میں پائے جاتے ہیں ۔ دودھ کے دھلے کوئی نہیں ۔ تاہم بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے لوگوں کی صحیح تربیت کریں ۔ جماعت کے بعض نادان دوست تبلیغی جماعت پر تنقید کرتے ہیں کہ ان کے مخاطب صرف ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں! ہاں یہ بہت حد تک شروع کے دور میں تھا بعد میں عصری تعلیم یافتہ افراد بھی پوری دنیا میں اس سے وابستہ ہوئے ۔ اسی طرح بغیر صحیح علم کے تبلیغی جماعت کے بعض نادان ساتھی جماعت اسلامی پر تنقید کرتے ہیں ۔ صحیح منہج یہ ہے کہ جو کام تبلیغی جماعت نہیں کر رہی ہے یعنی غیروں میں تبلیغ تو وہ کام جماعت والے کر رہے ہیں اور کر لیں ۔ اور جو کمی جماعت میں نظر آرہی ہے اسے تبلیغ والے پوری کر لیں۔
صحیح احادیث اور مستند واقعات پر مبنی حیات الصحابہ پڑھنے پر جماعت والوں کو اعتراض نہ ہو بشرطیکہ ترجمہ اور تفسیر کو بند کرا کے حیات الصحابہ کو ترجیح نہ دی جائے بالفاظ دیگر ترجمہ و تفسیر قرآن کے درس پر تبلیغ والوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔ بعض لوگوں کی طرف سے جماعت اسلامی ہند، تبلیغی جماعت، اہل حدیث، جمعیت علماء ہند وغیرہ کو نشانہ بنایا جانا غیروں کو ان کے خلاف بولنے کا جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ خدا را اپنے سیاسی مفادات کے لیے اور مسلکی نفرت کے اثر میں اپنی ملی تنظیموں کو نقصان پہنچانے کا سبب نہ بنیں۔