الٰہ آباد (ایجنسی)
الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ہندوستان کا آئین ہر بالغ شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اپنی پسند کی شادی کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بات ایک مسلمان لڑکی کے ایک ہندو نوجوان سے ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کے معاملے میں کہی۔پریمی جوڑے نے عدالت سے بتایا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ۔
جسٹس منوج کمار گپتا اور جسٹس دیپک ورما کی بنچ نے کہا کہ عدالت نے کہا کہ آئین سب کو وقار کے ساتھ جینے کا حق دیتا ہے ۔ کورٹ نے مسلم لڑکی اور اس کے عاشق کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہاکہ صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنا قابل قبول نہیں ، لیکن اگر دو بالغ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو انہیں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے کا حق ہے ۔ اس میں ان کے والدین بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتے، حالانکہ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ حتمی نتیجہ نہیں ہے۔ وہ لڑکی اور نوجوان کی عمر کو دیکھنے کے بعد یہ کہہ رہے ہیں۔ اس معاملے میں لڑکی کی عمر 19 ہے اور اس کے پارٹنر کی عمر 24 سال ہے۔
ایک الگ معالہ میں ایک مسلمان شوہر کے ذریعہ اپنی بیوی کو نوٹس دیئے بغیر طلاق دینے کے یکطرفہ حق کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ یہ عمل روایتی من مانی، شریعت مخالف ،غیر آئینی ،خودمختاری اور استحصال پر مبنی ہے ۔ جسٹس ریکھا پلی کے سامنے جمعرات کو یہ معاملہ سماعت کے لیے آیا۔ انہوں نے کہا کہ اسےپی آئی ایل دیکھنے والی بنچ کے سامنے فہرست کیاجائے ۔
درخواست میں اس معاملے پر تفصیلی ہدایات جاری کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلم شادی محض معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حیثیت ہے۔ درخواست ایک 28 سالہ مسلم خاتون کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس نے کہا کہ اس کا شوہر اس سال 8 اگست کو اسے تین طلاق دینے کے بعد چھوڑ گیا تھا اور اس کے بعد اس نے اپنے شوہر کو قانونی نوٹس جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اگست 2017 میں فیصلہ دیا کہ مسلمانوں میں تین طلاق کا رواج غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
ایک دیگر معاملے میں تمل ناڈو سرکار نے ایسے 5570 کیس واپس لے لیئے جو 2011 اور 2021 کے درمیان ریاست میں درج ہوئے تھے ۔ ان میں میڈیا سمیت پرامن طریقہ سے اپنا احتجاج کرنے والے لوگوں سے جڑے معاملے شامل ہیں ۔ اسٹالن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک غلط روایت رہی ہے۔جو لوگ اپنی بات پرامن طریقے سے سامنے رکھ رہے ہیں ان پر کیس درج کرنا غلط ہے ۔