نئی دہلی — :
سینئر لیڈر، آپ کے ایم ایل اے اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے لودھی روڈ کے علاقے میں واقع لال مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا جہاں سی آر پی ایف ایک بہت بڑا دفتر احاطہ تعمیر کررہی ہے۔
چونکہ لال مسجد جس کی عمر تقریباً200 سال ہے اور اس کا ذکر دہلی حکومت کے سرکاری گزٹ میں ملتا ہے ، جو حضرت نظام الدین درگاہ کے قریب واقع ہے ، اس لئے اس علاقے میں کشیدگی پیدا ہوئی، جب حضرت نظام الدین پولیس اسٹیشن کے پولیس انسپکٹر نے مسجد کے عملے سے احاطہ کو خالی کرنے کیلئے کہا ،کیونکہ اس کی زمین کو سی آر پی ایف کے حوالے کرنے کے لئے منہدم کیا جانا ہے۔
اگرچہ دہلی وقف بورڈ کے ذریعہ اس مسجد کی قانونی طور پر نگہداشت کی جارہی ہے ، لیکن اس مسجد کی دیکھ بھال کے لئے کبھی بھی عملہ یا امام ، معززین سمیت کسی کو مقرر نہیں کیا گیا۔ بورڈ نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مسجد وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔
در حقیقت ، وقف بورڈ کے ذریعہ مسجد سے نظرانداز ہونے کی وجہ ہی مرکزی وزارت شہری امور کے لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفیسر نے سی آر پی ایف دفاتر کی تعمیر کے لئے ایک قبرستان اور لال مسجد سمیت وقفہ اراضی کی 2.33 ایکڑ اراضی مختص کرنے کا سبب بنی ہے۔وقف بورڈ کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہئے تھا ، اس نے پولیس میں شکایت درج کرنے میں پانچ ماہ کا وقت لیا۔ 29 جولائی ، 2017 کو حضرت نظام الدین پولیس سے اپنی شکایت میں وقف بورڈ نے بتایا کہ سی آر پی ایف کو الاٹ کئے گئے پلاٹوں کا خسرہ نمبر 360 اور 361 کے تحت 31 دسمبر 1971 کے قبرستان اور لال مسجد کے طور پر دہلی حکومت کے گزٹ میں دکھایا گیا ہے اور اس لئے ا ن پلاٹوں پر کوئی بھی تعمیراتی سرگرمی بند کی جائے۔ فی الحال قبرستان اور لال مسجد سے متعلق معاملہ دہلی وقف ٹریبونل میں زیر التوا ہے، حالانکہ سی آر پی ایف نے پہلے ہی قبرستان پر تعمیراتی کام شروع کردیا ہے۔
لال مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے اسی طرح کی کوششیں ماضی میں بھی دو بار 2017 اور 2019 میں کی گئیں۔ حالانکہ دونوں ہی مواقع پر امانت اللہ خان اور اس وقت کے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اس کے دفاع میں آئے تھے۔