کلیم الحفیظ
تقدیر ایک ایسا لفظ ہے جو انسان کو سکون اور اطمینان عطا کرتا ہے۔تقدیر پر ایمان، انسان کو ٹینشن اور ڈپریشن سے محفوظ رکھتا ہے۔اس لیے کہ ٹینشن اور ڈپریشن کے الفاظ تقدیر پر ایمان کی ضد ہیں۔لیکن مسلم معاشرے میں اس لفظ کا جس قدر غلط استعمال ہوا ہے شاید کسی اور لفظ کا ہوا ہو،یوں تو برصغیر کے مسلمانوں نے کم و بیش اپنے جملہ عقائد میں کچھ نہ کچھ پھیر بدل کرلیا ہے۔لیکن عقیدۂ تقدیر میں اس نے جس قدر تحریف کرلی ہے وہ باقی عقائد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔آج مسلم معاشرہ غلامی،ذلت اور رسوائی کی جس دلد ل میں جا گرا ہے اس میں تقدیر کے غلط مفہوم کا بڑا حصہ ہے۔آج ہم اپنی غربت،جہالت اور محکومی کو اپنا مقدر مان کر آرام کی نیند سوتے ہیں۔ہمارا مزدور اپنی معاشی تگ و دو میں صرف اس لیے اضافہ نہیں کرتا کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہی اس کے مقدر میں ہے۔یہاں تک کہ ہمارے بھیک مانگنے والے فقراء بھی ہاتھ پھیلانے کو اپنی تقدیر سمجھ کر ساری عمر بھیک مانگتے ہیں ۔یہی کچھ حال ہماری سیاست کا ہے۔ہم اقتدار کی تمنا سے بھی محروم ہیں۔ہمارے دلوں میں اب اس ضمن میں آرزؤں نے بھی پیدا ہونا چھوڑ دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے ہر چیز مقدر فرمادی ہے۔مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ یہ مقدر اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ میرا مقدر کیا ہے؟اگر مجھے میرا مقدر معلوم ہی نہیں تو میں اپنی کمزوری کو مقدر کیوں تسلیم کرلوں۔؟کیوں نہ خود کو خوش حال اور طاقت ور بننے کی جدو جہد کروں؟کیوں نہ تمنا کروں کہ ایک دن اپنے ملک کے لیے قابل فخربن جائوں؟اس بات کی آرزو کیوں نہ کروں کہ میری آنے والی نسلیں مجھ سے بہتر حالات میں زندگی گزاریں؟ایک غریب انسان جب اپنی غربت کو مقدر سمجھ لیتا ہے تو وہ اپنی خوش حالی کے حصول کے لیے کچھ نہیں کرتا،وہ اپنے حالات بدلنے کی کوشش تو بہت دور تمنا بھی نہیں کرتا۔اسی لیے اسے کوئی راستا بھی نہیں دکھائی دیتا۔وگر نہ اگر وہ اپنی حالت کے بدلنے کا ارادہ کرے،اپنے ارد گرد کا جائزہ لے،اپنی آمدنی میں اضافے کی راہیں تلاش کرے ،اپنی صلاحیتوں اور اپنے سرمائے کی صحیح منصوبہ بندی کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا اس کی محنت کو رائگاں کردے ۔اسی طرح کوئی محکوم قوم اپنی حالت بدلنے کی ٹھان لے تو کون ہے جو اسے غلامی کی دلدل میں رہنے پر مجبور کردے؟گزشتہ ہزار کی سال تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کتنی ہی پست اقوام، اپنے ملک کی رہنما بن گئیں۔خود ہندوستان میں آزادی کے بعد ہی حالات کس طرح تبدیل ہوئے ؟ہم سب جانتے ہیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے سامنے ہی وہ قومیں جن کے ہاتھ کا پانی پینا بھی ان کے ہم مذہب گوارا نہیں کرتے تھے ،وہی ان کے دفتروں میں چپراسی ہوگئے،اور انھیں ہر صبح سلامی دینے لگے۔اسی طرح جغرافیائی اعتبار سے ملک کا وہ حصہ جو کبھی دانے دانے کو محتاج تھا آج وہاںرزق کی فراوانی ہے۔میری مراد جنوبی ہندوستان سے ہے۔اسی طرح وہ جماعتیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا آج ان کے در پر بھیڑ لگ گئی؟کیا یہ سب کاتب تقدیر نے ان کے مقدر میں لکھ دیا تھا اس لیے ہوگیا؟ یا انھوں نے اس رخ پر کوششیں کیں ؟اور اپنی جدو جہد میں مخلص رہے اس لیے اس کا نتیجہ ان کو ملا؟تقدیر کا غلط تصور ہمارے نکمے پن کومذہبی سند عطا کرتا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ نعوذ باللہ خود اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی امت پر یہ ذلت مسلط کررہا ہے؟تقدیر کا غلط تصور انسان کو عمل کی بنیاد پر جزا وسزا سے آزاد کردیتا ہے ؟اس جرم کی سزا کیسی جس کا کرنا خود اللہ نے مقدر فرمادیا ہو ؟اور اس نیک عمل پر انعام کیوں جس کا ہونا مقدر تھا؟
تقدیر کا دخل ان معاملات میں ہوتا ہے جہاں انسان کو اختیار اور آزادی حاصل نہ ہو،مثلاً انسانوں کا تخلیقی عمل سراسر مقدر پر منحصر ہے ،انسان کے اختیار میں شادی کرنا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ صاحب اولاد بھی ہوجائے۔اسی طرح انسان کا مرجانا بھی تقدیر الٰہی ہے ،انسان کے بس میں اپنی صحت کی دیکھ بھال اور علاج ہے لیکن موت سے بچ جانا یا کبھی نہ مرنا اس کے اختیار میں نہیں ۔اسی طرح تقدیر کا عمل دخل وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں عمل کا دخل ختم ہوتا ہے،اول تو کسی فرد یا اجتماعیت کی مخلصانہ جدو جہد کبھی رائگاں نہیں جاتی لیکن اگر بالفرض کبھی ایسا ہوبھی جائے کہ تمام کوششوں کے بعد بھی ناکامی ہاتھ لگے تو ایک مومن اسے اللہ کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرلیتا ہے۔وہ اس بات کا جائزہ تو ضرور لیتا ہے کہ اس کی کوششوں میں کہاں کمی رہ گئی لیکن وہ اپنی ناکامی کے سبب پاگل نہیں ہوتا ،وہ ڈپریشن میں نہیں چلاجاتا۔بلکہ نئے سرے سے اپنی جدو جہد کا آغاز کرتا ہے۔
تقدیر کا غلط مفہوم خود کو فریب دینے کے سوا کچھ نہیں۔اس وقت پوری ملت اسلامیہ عام طور پر اور خاص طور پر ہندوستان میں تقدیر کے غلط تصور کو لیے بیٹھی ہے۔اس میں بھی معاف کیجیے گا ہمارا وہ طبقہ جو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں پیش پیش ہے وہ خود بھی تقدیر کا بہانہ بنا کر بے عملی کا مظاہرہ کررہا ہے اور معاشرے میں بھی اس غلط تصور کی اشاعت کررہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تقدیر کے اُسی مفھوم کو سامنے رکھنا چاہئے جو ہمیں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے سکھایا ہے۔آپ ؐ نے غزوہ ٔ بدر میں فوج کی صف کو درست کرنے کے بعد سجدے میں گر کر اپنے رب سے کہا تھا کہ میں جو کچھ کرسکتا تھا کردیا ہے باقی انجام آپ کے ہاتھ ہے۔یعنی میں تیرے جاں نثاروں کے ساتھ گھر سے نکل کر میدان میں آگیا ہوں،میرے پاس جو سامان جنگ تھا وہ لے آیا ہوں،تیرے پرستار، دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں اب شکست و فتح تیرے ہاتھ ہے۔آپ ؐ نے اللہ کا اقتدار قائم کرنے اور اسلام کو غالب کرنے کے لیے تمام ممکنہ تدابیر اختیار فرمائیں اور اس کے بعد تقدیر پر بھروسہ کیا۔آپؐ نے فرمایا:’’ پہلے اونٹ کو کھونٹے سے باندھ پھر تقدیر پر بھروسہ کر‘‘جس امت کے پاس اپنے رسول کا یہ اسوہ ہو وہ امت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر سب کچھ کاتب تقدیر سے ہی کرانا چاہے تو یہی انجام ہوتا ہے جو اس وقت ہمارا ہے کیوں کہ اسی کاتب تقدیر نے کہا ہے ’’ یقینا اللہ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا ہے جب تک وہ خود اپنے کو نہ بدل لے۔ ‘‘
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ