بنگلور :(ایجنسی)
ملک میں ’بُلّی بائی‘ جیسی مسلم خواتین دشمنی کے درمیان کرناٹک سے ایک اور زہریلی خبر آرہی ہے۔ اُڈپی میں مسلم طالبات کو حجاب پہننے، سلام کرنے اور اردو بولنے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ ہٹلری فرمان 2 جنوری کو گورنمنٹ پی یو کالج میں جاری کیا گیا۔مسلم طالبات نے بتایا کہ انہیں حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مسلم لڑکیاں تین دن سے کلاس کے باہر احتجاج کر رہی تھیں۔ لڑکیوں کا الزام ہے کہ پرنسپل رودر گوڑا نے ان سے کہا ہے کہ وہ کلاس میں حجاب نہ پہنیں۔ گوڑا نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ کلاسوں میں یکسانیت کے لیے اس اصول پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ہم حجاب کو یونیفارم نہیں بننے دیں گے۔
بتادیں کہ حجاب کوئی یونیفارم نہیں ہے۔ حجاب کچھ مسلمان خواتین اپنے تحفظ اور شناخت کے لیے پہنتی ہیں۔ یہ چہرے پر اسکارف باندھنے کے مترادف ہے۔ یہ کوئی پردہ نہیں ہے، جو شمالی ہندوستان کی تمام ریاستوں میں ہندو خواتین میں اب بھی رائج ہے۔
اڈپی میں احتجاج کرنے والی طالبات نے بتایا کہ ان کے والدین پرنسپل سے بات کرنے کالج گئے تھے لیکن پرنسپل نے انہیں جواب دینے سے انکار کر دیا۔اس کے بعد گرلز اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (جی آئی او) کے ایک وفد نے اڈپی کے ضلع کلکٹر سے کرما راؤ سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ لڑکیوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ تاہم، ضلع کلکٹر نے معاملے کو حل کرنے کا دعویٰ کیا اور طالبات سے حجاب پہن کر کلاس میں آنے کی اپیل کی۔
دوسری جانب کرناٹک کے چکمگلور کے کوپا تعلقہ کے ایک سرکاری کالج میں کئی طالبات نے حجاب پہن کر آنے والی مسلم طالبات کے خلاف احتجاج کیا۔ ان طلباء نے اپنے گلے میں زعفرانی انگوٹھا ڈال رکھا تھا۔احتجاج کا یہ واقعہ اڈپی شہر میں پیش آنے والے واقعے کے فوراً بعد پیش آیا۔
کرناٹک میں 2021 میں مسلم مخالف واقعات میں اضافہ ہوا۔ بجرنگ دل، وی ایچ پی جیسی تنظیموں نے بھی مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرے کئے۔ حال ہی میں کرسمس کے موقع پر کئی عیسائی پریواروں پر حملے بھی ہوئے۔ ریاستی حکومت نے تبدیلی مذہب بل بھی لاچکی ہے ۔