نئی دہلی:(ایجنسی)
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں مرکزی حکومت کے عبادت گاہ ایکٹ 1991 کو غیر منطقی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
وقفہ صفر کے دوران اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے، بی جے پی کے ہرناتھ سنگھ یادو نے کہا کہ یہ قانون بھگوان رام اور بھگوان کرشن کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے عبادت گاہوں کے قانون 1991 میں ’من مانی اور غیر آئینی‘ دفعات کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ 15 اگست 1947 کی عبادت گاہوں کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس قانون میں ایودھیا میں شری رام جنم بھومی کو الگ رکھا گیا ہے۔ یہ دفعات نہ صرف آئین میں درج مساوات اور زندگی کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہیں بلکہ سیکولرازم کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
انہوں نے اسے آئین کے تمہید اور بنیادی ڈھانچے کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ سری رام جنم بھومی کیس کو چھوڑ کر عدالتوں میں زیر التوا ایسے تمام معاملات کو ختم تصور کیا جائے گا۔ یادو نے کہا، ‘یہ حیرت کی بات ہے کہ اس قانون میں ایک ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شہری اس قانون کے خلاف عدالت نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کا واضح مطلب ہے کہ ‘غیر ملکی حملہ آوروں کے شری کرشن کی جائے پیدائش سمیت دیگر مقامات پر تلوار کی نوک پر زبردستی قبضے کو اس وقت کی حکومت نے قانونی شکل دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس غیر منطقی اور غیر آئینی قانون کے ذریعے ہندو، جین، سکھ اور بدھ مت کے ماننے والوں کو مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ قانون رام اور کرشن کے درمیان امتیاز پیدا کرتا ہے جبکہ دونوں بھگوان وشنو کے اوتار ہیں۔
یادو نے کہا کہ ‘مساوات اور ایک جیسی شرائط کے لیے دو قانون نہیں ہو سکتے اور کوئی بھی حکومت اپنے شہریوں کے لیے عدالتوں کے دروازے بند نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہاکہ ‘یہ قانون مکمل طور پر غیر منطقی اور غیر آئینی ہے۔ یہ ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے لوگوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ ظلم ہے۔ اس قانون کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
قابل ذکر ہے کہ شری رام جنم بھومی تنازع کے حل کے بعد اب متھرا میں شری کرشن جنم بھومی کا تنازع گرم ہونے لگا ہے اور اس حوالے سے متھرا کی عدالت میں کئی مقدمات درج ہیں۔ حال ہی میں ایک نیا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔