آدتیہ مینن
مرکزی حکومت نے یکم جون کو سی بی ایس ای 12 ویں بورڈ ایگزام منسوخ کرنے کا فیصلہ لیا۔ سرکار نے کووڈ بحران کے درمیان طلبا کی’حفظات‘ کا حوالہ دیا،جیسے ہی یہ اعلان ہوا ،کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ الزام لگایا کہ اس فیصلے سے مرکزاور ریاستوں کے انتخابات کے لئے نوجوان ووٹرز کو ذہن میں رکھا گیا ہے۔
سیاست کے تحت کیوں دیکھا جارہا فیصلہ؟
اس قدم کو لے کر سیاست کرنے کا الزا م اعلان نہیں بلکہ اسے کرنے کے طریقے کی وجہ سے لگ رہا ہے۔
اس فیصلے کا اعلان وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے سرکاری ٹویٹر ہینڈل سے کیا۔ انہوں نے لکھا ،’ ’مرکز ی سرکار نے کلاس 12 ویں بورڈ ایگزام کینسل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کافی صلاح ومشورہ کے بعد ہم نے طلبا کے مفاد میں فیصلہ لیا جس سے ان کے صحت اور ہمارے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ رہے۔‘ ‘
جب گزشتہ سال جماعت12 ویں کے امتحانات منسوخ ہوگئے تھے ، سی بی ایس ای نے یہ جانکاری سپریم کورٹ کو دے دی تھی۔
اس سال بھی یہ اعلان سی بی ایس ای کے ذریعہ ایک پریس کانفرنس یا پریس ریلیز میں دی جاسکتی تھی۔ اگر اسے اہم سرکاری فیصلہ بھی مان لیا جائے تو ایجوکیشن وزیر اس کا اعلان کرسکتے تھے، یہ حیران کرتا ہے کہ پی ایم نے اس کا اعلان کیا۔
تو لوگوں کا یہ پوچھنا واجب ہے کہ کیا یہ فیصلہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے یا کچھ ہیڈ لائن کمانے کے لیے لیا گیا ہے، وہ بھی تب جب بحران کے درمیان سرکار کی خوب کرکری ہو رہی ہے ۔
اس نظریہ کواور پختہ اس بات نے کیا کہ کئی بی جے پی حامیوں نےسوشل میڈیا پر وزیر اعظم مودی کو مبارک باد دی، جبکہ کانگریس حامیوں نے کہاکہ ایسا جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کے مشورے پر ہوا ہے ۔
گاندھی نے چند دن قبل ایگزام کینسل کرانے کو لے کر مرکز کو خط لکھا تھا، دونوں فریقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ طلبا کی حفاظت کی جیت ہے ۔ واڈرا کے علاوہ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن اور سابق یوپی سی ایم اکھلیش یادو نے بھی ایگزام رد کرنے کی اپیل کی تھی۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر نیت سیاسی بھی تھی تو بھی ، مودی سرکار کا فیصلہ لینے یا اپوزیشن جماعتوں کے ذریعہ اس کا مطالبہ کرنے میں کوئی غلطی نہیں نظر آتی ہے۔ کووڈ کے خطرے کے پیش نظر حکومت کا یہ امتحان منسوخ کرنے کا فیصلہ درست نظر آتا ہے۔
امتحان منسوخ کرنے کا سیاسی اثر کیا ہو گا؟
کیا یہ فیصلہ سیاسی وجوہات کی بناپر کیا گیا تھا یا طلبا کی حفاظت کا بنیادی ایجنڈا تھا ، یہ سبھی ایک دوسرے سوال سے جڑے ہیں۔اس کا سیاسی اثر کیا ہوگا؟ سوال اہم ہے کیوں کہ اگر اثر زیادہ نہیں ہے تو سیاسی ارادوں کا الزام لگانا عقلی نہیں ہوگا۔
ڈیٹا ضروری بات بتاتا ہے، 12 ویں کے امتحانات دینے والے طلبا میں سے ایک چھوٹا سے حصہ ہی سی بی ایس ای کاہوتاہے، 2018 کے اندازے کے مطابق 1.5کروڑ طلبا نے 12 ویں کا ایگزام دیا اور ان میں سے صرف 11.9لاکھ سی بی ایس ای سے تھے۔ امتحان دینے والے کل طلبامیں سے صرف 8 فیصد ہی سی بی ایس ای سے ہوتے ہیں۔
چونکہ سماج کے زیارہ متاثر طبقے کے طلبا سی بی ایس ای اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ، اس لئے شاید اسے ریاستی بورڈ کے مقابلے میں زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ مرکز کے تحت آئی سی ایس ای اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی ایس او ) بھی آتے ہیں۔ 2018کے اعداد وشمار کے مطابق این آئی او ایس سے 12 لاکھ طلبا اور آئی سی ایس ای سے 80,000بچوں نے 12 ویں ایگزام دیئے تھے۔ مجموعی طور پر تینوں بورڈز سے 12 ویں کے امتحانات دینے والے کل طلبامیں سے 16 فیصد امتحان میں شریک ہوئے تھے۔
اس لئے مرکز کے فیصلے سے صرف 16 فیصد طلبا پر اثر پڑے گا ۔ 2018 کے حساب سے یہ 25 لاکھ طلبا ہوتے ہیں۔ اگر 2024 کے انتخابات تک یہ تعداد 40 لاکھ بھی ہو جاتی ہے تو یہ کوئی بہت اہم ووٹ بینک نہیں ہوگا۔
حکومت یا اپوزیشن اس سے سیاسی فائدہ اٹھاسکتی ہے جب وہ ووٹرز کو راضی کرسکیں کہ ریاست اور بورڈ امتحانات رد مودی سرکار یا حزب اختلاف کے کسی رہنما کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
اس میں بھی یہ مانا جائے کہ تمام طلبا اس قدم سے خوش ہیں، ایسا بھی ہو سکتاہے کہ کئی طلبا ایگزام دیناچاہتے ہوں ، اس لئے قدم کے ساسی اثر کو زیادہ نہیں سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ)