تحریر:عبد الحمید نعمانی
کچھ دنوں سے بھارت کے حوالے سے کئی ایسی باتیں زیر بحث ہیں جنہوں نے مختلف قسم کے سوالات کھڑے کیے ہیں، کسی بھی فرد، تنظیم، پارٹی اور ملک کے معاملے میں شبیہ کی بات بہت اہم ہوتی ہے، گرچہ بھارت کی شبیہ بگاڑنے اور اس کے امن پسندانہ روایات و تنوعات کے خوبصورت چہرے کو مکروہ رنگ میں لانے کا سلسلہ گاندھی جی کے قتل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا تاہم 1964 سے ایک الگ رنگ میں بھارت کو رنگنے کی کوشش شروع ہو کر 2014 کے بعد سے جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس نے ملکی اور عالمی سطح پر سنجیدہ افراد کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، ابھی حال فی الحال نیپال کے کیبنٹ وزیر ڈاکٹر کیشو مان شاکیہ کا ایک فکر انگیز انٹرویو کئی نیوز پورٹلز پر دیکھنے کو ملا، انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ نیپال ایک عرصہ دراز تک ہندو راج کے طور پر جانا جاتا رہا ہے، لیکن اس نے عوام کے مسائل کو حل اور مشکلات کو دور کرنے میں کوئی خاص رول ادا نہیں کیا اور بالآخر اسے ایک طویل جدوجہد کے بعد جمہوری نظام حکومت میں تبدیل کیا جا سکا، انڈیا والے ایسی غلطی نہ کریں، یہ انٹرویو خاصا تفصیلی سمتا بھارت ٹی وی پر موجود ہے، YouTube, Com samta Bharat tv پر بھی اسے دیکھا جا سکتا ہے، برہمن وادیوں نے ہندو اور ہندو راشٹر کے نام پر جس چالاکی سے نیپال اور اس کے عوام کو جس راستے پر چلانے کا کام کیا تھا اس سے وہ بہت نیچے چلے گئے اور بڑی تکلیف و غریبی میں پڑ گئے، بھارت کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے،
اور اسے الٹی سمت میں لے جانے کی غلطی نہ کرے، ہم نے ہندو راج اور ہندو راجا دونوں کو اٹھا کر پھینک دیا ہے، ہندو اور ہندو راشٹر دونوں کے لیے جات پات اور منو کا قانون ضروری ہے، اس کے بغیر ہندو کا کوئی مطلب نہیں ہے، یہ تبصرہ بہت صاف اور بہت کچھ بے نقاب کر دیتا ہے، اس کا ہندوتو وادیوں کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے، اسی طرح نیوز انڈین ایکسپریس میں شائع اور پی ٹی آئی سے نشر امریکی ایوان نمائندگان کے فلور پر کانگریس مین اینڈی لیون کی اس آخری تقریر کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جا سکا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو ایک ہندو قوم پرست ریاست بننے کے خطرے کا سامنا ہے، لیون نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ میں ہندستان جیسی جگہوں پر انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھاتا رہا ہوں، جو سیکولر جمہوریت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بجائے ہندو قوم پرست اسٹیٹ بننے کے خطرے کی زد میں ہے، لیون کا یہ تبصرہ اس لیے بھی قابل توجہ ہونا چاہیے کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں بلکہ امریکی ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن اور ایشیا بحر الکاہل، وسطی ایشیا وغیرہ کمیٹی کے نائب سربراہ ہیں، اس کے پیش نظر جب وہ بھارت میں مذہبی آزادی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے یہ کہیں کہ نریندر مودی کا بھارت، وہ بھارت نہیں ہے جس مجھے پیار ہے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے،
یونیفارم سول کوڈ بنا کر اسے تمام مذاہب والوں پر نافذ کرنے اور مدرسہ اور مسلمانوں کے متعلق کئی معاملے جیسے مولانا آزاد اسکالر شپ کو بند کر دینا وغیرہ کے تناظر میں دکھائی دیتا ہے کہ بھارت بھارت ہندوتو کی فرقہ وارانہ راہ پر آگے بڑھ رہا ہے، غالبا اسی پس منظر میں یہ تبصرہ ہے کہ بھارت کو ہندو قوم پرست ریاست بننے کے خطرے کا سامنا ہے، جامع مسجد گیان واپی جیسی تاریخی مسجد کو مندر بتاتے ہوئے مندر بنانے کی مہم سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکولر انڈیا، ہندو انڈیا بننے کی راہ پر ہے، لیکن بھارت کے عام لوگ بھارت کو بھسم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں، ہندو انڈیا میں بھارت کے تنوعات کا باقی رہنا ممکن نہیں ہے، ہندستانی سنسکرتی اور ہندو سنسکرتی، دونوں ایک نہیں ہیں اور نہ ہندو اور ہندوتو وادی ایک ہیں، مشترکہ تہذیب ہندستانی سنسکرتی ہے جب کہ ہندوتو وادی سنسکرتی برہمن وادی تفوق پر مبنی ایک خاص قسم کی کمیونٹی کی سنسکرتی ہے،
اسے بھارت کے متنوع روایات وافکار کے تناظر میں اعتدال کی حالت میں رہنے پر ایک حصہ مانا جا سکتا ہے لیکن اسے زبردستی تمام باشندوں پر لادا نہیں جا سکتا ہے، برہمن وادی تفوق اور اس کی خواہش، ایک من مانی زندگی اور اپنی پسند کے افکار و روایات کے تسلط کی کوششیں، انسانی تکریم و مساوات کے خلاف، قدیم دور سے جاری عمل کا حصہ ہیں، اس کے خلاف تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی طرح کی تحریکات برپا ہوتی رہی ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ برہمن واد بار بار اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوتا رہا ہے، من مانی زندگی کو اسلامی نظریہ حیات کی تاریخ میں” جاہلیت ” کے نام و عنوان سے درج و متعارف کرایا گیا ہے، انبیائی دعوت و جدوجہد کا تعلق رشد و نور (روشنی اور ہدایت )سے ہے، اس کے بر خلاف و بالمقابل غی و ظلمات (گمراہی اور تاریکی )کی تحریک و مہم ہے،
دونوں کے نمونے بھارت میں بھی ملتے ہیں، بھارت کی عام روایت نور و رشد سے متعلق کھلے طور پر نہ اپنانے کے باوجود احترام کا رویہ ہے جب کہ طبقاتی نظام زندگی کے تحت تفوق پسند طبقے کی طرف سے ظلمات و غی کی معیت میں خود کو ہر حال میں حاکم کی حیثیت میں رکھنا ہوتا ہے، یہ طبقہ تاریخ میں بارہا مغلوب بھی ہوا ہے، وقت پڑنے پر تھک ہار کر خاموش بھی ہو جاتا رہا ہے مگر ہمیشہ کے لیے خاموش کبھی نہیں ہوا اور برے سے برے دن میں بھی کبھی میدان چھوڑ دینے کا روادار نہیں رہا ہے، اسلام کے مکمل غلبے کی حالت میں بھی کسی نہ کسی حصے اور شکل میں "رشد” کے مقابلے،” غی "کے خفیہ اڈے قائم رہے ہیں، ،التواء جنگ کو خاتمہ جنگ سمجھ لینا کبھی بھی سمجھ داری میں شمار نہیں کیا گیا ہے، بھارت کی روایت کا حصہ مندر، مسجد دونوں ہیں لیکن ہندوتو، مسجد خصوصا ایسی مسجد کو جس کے ساتھ تاریخ بھی ہو، ٹھنڈے پیٹھوں برداشت نہیں کرتا ہے،
اس سے وابستہ علامتوں کو ختم کرنے یا نا قابل توجہ بنانے پر زور ہوتا ہے، چاہے کتاب ہو یا ملک اس میں گزرتے دنوں کے ساتھ، ضرورت و حالات کے تحت مختلف ابواب جڑتے چلے جاتے ہیں، بھارت کے قومی شاعر و ادیب رام دھاری سنگھ دنکر نے اسلام کو اپنی کتاب ” سنسکرتی کے چار ادھیائے "میں ایک مستقل باب کے تحت رکھا ہے، سوامی وویکا نند نے روشن بھارت کے وجود کے لیے اسلام کو ایک ضرورت قرار دیا ہے، اس حوالے سے اسلام اور مسلمان مکت بھارت کا خواب، شیطانی خواب اور احمقانہ خواہش ہے، یہاں اپنے اپنے مذہب و نظریہ کے مطابق چلنے کی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مولانا مدنی رح و مولانا آزاد رح کا تصور متحدہ قومیت،
وقت کی ضرورت اور ہندوتو اور یورپی فرقہ وارانہ اور جارحانہ منفی راشٹر واد اور تصور قومیت کے مقابلے ایک معقول اور بھارت سے ہم آہنگ متبادل ہے، گاندھی جی کا تصور قومیت بھی ہندوتو وادی راشٹر واد کے خلاف ہے ،جس میں ملک کے تمام باشندے ایک ساتھ، آزادی سے رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ شریفانہ زندگی گزار سکتے ہیں، اس تناظر میں بھارت سے متصادم اور موافق و ہم آہنگ فکر و عمل میں انتخاب کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے،