نئی دہلی :(ایجنسی)
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعد کانگریس صرف دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ وہیں مئی 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جب پی ایم مودی اقتدار میں آئے تو کانگریس کی حکومت والی ریاستوں کی تعداد نو تھی۔ ساتھ ہی، پارٹی 2014 سے اب تک 45 میں سے صرف پانچ انتخابات جیت سکی ہے۔
ان نتائج نے کانگریس کی ساکھ اور قیادت پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ سوالات باہر سے نہیں پارٹی کے اندر سے اٹھ رہے ہیں۔ انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے کانگریس کی کارکردگی پر پارٹی رہنماؤں سے بات کی ہے، جس میں انہوں نے اندرونی کشمکش اور قیادت کی کمی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اشارہ دیا تھا کہ پارٹی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی میٹنگ جلد ہی منعقد ہوگی جس میں مزید منصوبوں پر بات چیت کی جائے گی۔ لیکن، بہت سے لیڈر اس بات پر قائل نہیں ہیں۔
پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی جیت کو دیکھ کر کچھ نوجوان لیڈر کہتے ہیں کہ ’’پرانے اور تھکے ہوئے لیڈروں‘‘ کو نئے لوگوں کے لیے راستہ بنانے کی ضرورت ہے۔
کانگریس کی شکست پر پارٹی کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ میں حیران ہوں، پارٹی کی شکست دیکھ کر میرا دل رو رہا ہے۔ ہم نے اپنی ساری زندگی اور جوانی پارٹی کو دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پارٹی کی قیادت ان تمام کمزوریوں اور خامیوں کا جائزہ لے گی جن کی نشاندہی میں اور میرے ساتھی کچھ عرصے سے کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی سینئر لیڈر ششی تھرور نے بھی قیادت میں اصلاحات کے مطالبے کو دہرایا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، ’جس کا بھی کانگریس پر بھروسہ ہے وہ انتخابی نتائج سے غمزدہ ہے۔ یہ ہندوستان کے نظریہ کو مضبوط کرنے کا وقت ہے جس کے لیے کانگریس کھڑی ہے اور ملک کو ایک مثبت ایجنڈا دے گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تنظیمی قیادت کو اس انداز میں اصلاح کریں جو ان خیالات کو زندہ کرے اور لوگوں کو متاثر کرے۔ ایک بات واضح ہے کہ کامیابی کے لیے تبدیلی ضروری ہے۔