گروگرام : (ایجنسی)
’نہ ملاؤں کا نہ قاضی کا، یہ ملک ویر شیواجی کا ہے‘
گروگرام کے سیکٹر 37 میں ہندوتوا گروپوں کے ذریعہیہی نعرہ لگایا جا رہا تھا، جہاں مسلمان عام طور پر جمعہ کو نماز ادا کرتے تھے۔
گروگرام نماز تنازع نے جب اس ہفتے ایک بار پھر ایک بدصورت اور فرقہ وارانہ موقف اختیار کیا، ’دی کوئنٹ‘ نے شہر میں اس تنازع سے سب سے بڑی طرح متاثر مقامات میں سے ایک میں جو کچھ بھی ہوا ،اس کی دستاویزفلم بنائی ہے ۔
مسلم مخالف نعرے لگانے سے لے کر ایک مسلمان شخص کا یہ کہنا ہے ’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کےلیے دباؤ ڈالتے ہندوتوا بھیڑ نے اس کے ساتھ مار – پیٹ کی۔ یہ رہی گروگرام میںایک جمعہ کےشدید فرقہ وارانہ کہانی۔
یہ ہماری جائے پیدائش ہے، تمہاری نہیں
ہم یہاں پر امن طریقے سے نماز پڑھنے آئے تھے، انہوں نے (ہندوتوا مظاہرین) نے ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی اور اوپر سے ہمارے ساتھ مار پیٹ کی۔ میں ان کو کچھ نہیں بولا ، وہاں چپ چاپ کھڑا تھا اور مجھے پیچھے سے تھپڑ مارا ۔‘
ناظم علی مراد آباد کا ایک 28 سالہ مہاجر مزدور ہے جو گروگرام میں اپنی روزی روٹی کماتا ہے۔ وہ ہمیں بتا رہا تھا کہ کس طرح انہیں اور دوسرے مسلمانوں کو سیکٹر 37 میں کھلی جگہ پر نماز پڑھنے سے روکا گیا کیونکہ سیکڑوں ہندوتوا مظاہرین نے پوری جگہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔
مایوس ناظم علی نے کہا،’کیا کوئی ایسا مذہب ہے جو لوگوں کو عبادت کرنے یا نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے؟ کیا رام ہمیں نماز نہیں پڑھنے کے لیے کہتا ہے، یا اللہ کسی کو کہتا ہے کہ مندر نہ جاؤ؟ ہم یہاں صرف جمعہ کے دن نمازپڑھنے آتے ہیں روز نہیں آتے۔
انٹرویو کے عین درمیان میں ہندوتوا مظاہرین نے ہماری بات چیت میں خلل ڈالا اور ناظم پر چلانا شروع کردیا۔ گرم گہما گہمی تیزی سے بڑھی اور جے شری رام کے نعرے لگنے لگے۔
ایک ہندوتوا احتجاج کرنے والے انترپال نے ناظم پر چیخ کر کہا، ’یہ ہماری جائے پیدائش ہے، ہم یہیں رہیں گے۔
ناظم: یہ ہماری جائے پیدائش بھی ہے!
انترپال: تمہاری کیسے ہے؟
ناظم: ہمارےآبا واجداد یہاں مر ے ہیں۔
انٹرپال: کون سی نسل؟ کون سا محمد غوری یہاں مر گیا؟
ناظم نے جواب دیا، ’تو تمہارا کیا مطلب ہے – میں ایک غیر ملکی ہوں؟‘ اور انتر پال واپس چلایا ’ ہاں ، تم ایک غیر ملکی ہو، تم جو (نماز پڑھنا) کررہے ہو، اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ تم ایک غیر ملکی ہو۔‘
معاملہ آگے بڑھتا دیکھ کر ناظم اور اس کے دوست وہاں سے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ’’چلو، چلو یہاں سے،‘‘ اسے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
لیکن جب وہ علاقہ چھوڑ کر گئے تب بھی ہندو تنظیم کے مظاہرین نے اس کا پیچھا کیا۔
’’انہوں نے مجھ سے ’جے شری رام‘ کہنے کو کہا اور مجھے مارا پیٹا۔‘‘
چند منٹ بعدہم نے انترپال اور اس کی ہندو تنظیم کے کئی ساتھی مظاہرین کو ان کی بائیک پر دیکھا، جو دوسری سمت میں تیز رفتاری سے جا رہے تھے۔ جاتے وقت انترپال نے آواز لگائی، ’محمد غوری کو دوائی مل گئی ہے، چلو چلیں۔‘
ناظم نے کہا، ’ہم جا رہے تھے، جب یہ لوگ ہمارے پیچھے آنے لگے اور ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے لگے۔ پھر اس نے آکر اپنی بائیک میرے سامنے روک دی اور مجھ سے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کو کہا۔ میں نے اسے کہا کہ میں آپ کے بولنے سے نہیں کہوں گا۔ میں خود اپنی مرضی سے ’جے شری رام‘ کہتا ہوں اور پوجا میں بھی حصہ لیتا ہوں۔ لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کیونکہ وہ مجھے مجبور کر رہے ہیں۔
ناظم کا کہنا ہے کہ ہندو تنظیم کے مظاہرین نے پھر ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ ’وہ مجھے مکے مارتے رہے۔‘