نئی دہلی: انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) کی ہندوستانی اکائی کے زیر اہتمام منعقد ایک ایوارڈ فنکشن سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے سابق چیف جسٹس یویو للت نے کہا کہ حکومت کی غیرجانبدارانہ تنقیدسیڈیشن نہیں ہے
دی ہندو کے مطابق، انہوں نے کہا، (سیڈیشن کے لیے تعزیرات ہند کی) دفعہ 124اے ہمیشہ سے صحافت کے تمام وینچرز کے لیے پریشانی کا باعث رہا ہے
مجاہد آزادی بال گنگادھر تلک کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس للت نے کہا، ‘غیر جانبدارانہ تنقید ہر فرد کا حق ہے، (یہ) ہر صحافی کا حق ہے۔ مجھے حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر تبصرہ کرنے کا پورا حق ہے۔ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو یہ سیڈیشن نہیں ہے۔ سیڈیشن اس سے کہیں بڑی چیز ہے: بغاوت کو ہوا دینے کے لیے عدم اطمینان کو ہوا دینا۔ اگر میں کچھ ایسا کام کرتا ہوں جس سے لوگوں کے مسائل اجاگر ہوتے ہیں اور میں اسے پیش کرتا ہوں تو یہ سیڈیشن نہیں ہےریٹائرڈ جج نے کہا کہ صحافت کا معیار بہتر ہو رہا ہے، لیکن صحافیوں کو جس دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، سیڈیشن ایک نوآبادیاتی دور کا قانون ہے، جس کے تحت بال گنگادھر (تلک) سے لے کر (وی ڈی) ساورکر، (مہاتما) گاندھی، جواہر لال (نہرو) اور (سردار ولبھ بھائی) پٹیل تک مختلف سیاسی نظریات کے رہنما گرفتار کیے گئے تھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ کی روک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیڈیشن کوقانون کی کتابوں سے نکال دیا جائے۔