رپورٹ:اویس صدیقی
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں نے 15 دسمبر 2023 کو ‘یوم مزاحمت’ کے طور پر منایا۔ 15 دسمبر 2019 کو جامعہ کے طالبعلموں پر پولیس کی بربریت کو اب چار سال ہو چکے ہیں، جس کے خلاف طالبعلموں نے یونیورسٹی کیمپس میں مارچ نکالا۔ طلباء کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال یہ مارچ نکالیں گے اور دہلی پولیس کے مبینہ حملے کو یاد کریں گے۔
بتادیں کہ 2019 میں مرکزی حکومت کی طرف سے منظور کیے گئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ یہ مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں نے شروع کیے تھے، جس کے نتیجے میں شاہین باغ تحریک ابھری تھی اور ملک بھر میں شاہین باغ بننے شروع ہوگئے تھے۔
اسی سلسلے میں 15 دسمبر 2019 کو جامعہ کے طالبعلموں کی جانب سے مظاہرہ جاری تھا کہ دہلی پولیس نے مظاہرے کو ختم کرنے کے لیے طلباء پر لاٹھی چارج کر دیا اور آنسو گیس کے گولے بھی داغے، جس کی وجہ سے افراتفری مچ گئی۔ معاملہ اس وقت مزید سنگین ہو گیا جب پولیس کیمپس میں داخل ہوگئی اور لائبریری میں پڑھ رہے طلباء پر لاٹھی چارج کرنے لگی۔
اس کارروائی میں سینکڑوں طلباء زخمی ہوئے اور کئی طلباء شدید زخمی ہوئے۔دہلی پولیس کی بربریت کے خلاف اس دن کو یاد کرتے ہوئے ہر سال جامعہ کے طلبہ احتجاج کرتے ہیں اور اس سال بھی طلبہ کی جانب سے کیمپس میں ایک مارچ نکالا گیا جس کا اہتمام مختلف طلبہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر کیا تھا
این ایس یو آئی جامعہکی دبیہ جیوتی نے کہا، ’15 دسمبر جامعہ کے لیے ایک ایسا داغ ہے جسے کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس دن کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟ سینکڑوں ایسے طلبہ جو احتجاج میں شامل بھی نہیں تھے، لائبریری میں پڑھ رہے تھے، ان پر بھی دہلی پولیس نے پرتشدد کارروائی کی۔ جو لوگ احتجاج میں شامل تھے ان کی بات تو رہنے ہی دی جائے۔
آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے وقار نے بتایا کہ یہ مارچ جمعہ کو یونیورسٹی کیمپس میں پرامن طریقے سے نکالا گیا، جو سینٹرل کینٹین سے شروع ہوکر یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 7 پر ختم ہوا۔ اس مارچ میں ان تمام طلباء کی جدوجہد کو یاد کیا گیا جو پولیس کی بربریت کا شکار ہوئے تھے۔
طلباء کے اس مارچ میں ایک تصویری نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جس میں سی اے اے-این آر سی مخالف تحریک کے وقت کی تصاویر کے ساتھ ساتھ پولیس کی بربریت میں زخمی طلباء کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
واضح ہو کہ 15 دسمبر کے واقعہ کے بارے میں دہلی پولیس نے کہا تھا کہ طلباء کی طرف سے پتھراؤ کیا گیا تھا جس کے جواب میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا ۔جب پولیس کے لائبریری میں داخل ہونے پر سوال اٹھائے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ پتھراؤ کرنے والے طلبہ لائبریری میں چھپے ہوئے تھے۔ تاہم لائبریری میں وہ طالبعلم پڑھ رہے تھے جو کسی بھی طرح سے مظاہرے کا حصہ نہیں تھے۔
ایس ایف آئی کی کارکن ساکھی کا کہنا ہے کہ ‘ایک طالبعلم جوپڑھتا ہے یا سیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں اس سے متعلق سوالات بھی آتے ہیں جو وہ وقتاً فوقتاً اٹھاتا ہے۔ ہم بھی وہی کر رہے تھے۔ ایک ایسا قانون جو ہمارے ملک کے لیے اچھا نہیں ہے بلکہ ملک کو توڑنے والا قانون ہے، اس کی مخالفت کرنا ہمارا بنیادی حق ہے اور ہم وہی کر رہے تھے
مارچ میں شریک ایس آئی اوکے سعد کہتے ہیں، ‘اس مارچ کے ذریعے ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ظلم کی اس رات کو نہیں بھولے ہیں۔ ہمیں سب یاد ہے اور ہمیشہ سب کو یاد دلاتے رہیں گے
مارچ میں طالبعلموں نے’سب یاد رکھا جائے گا’ کے ساتھ ہی اس وقت کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی، اور آخر میں طلبہ نے فیض کی نظم ‘ہم دیکھیں گے’ کے ساتھ مارچ کا اختتام کیا