تحریر: افتخار گیلانی
جنوبی ایشیاء میں ویسے تو اکثر سیاسی پارٹیا ں مخصوص خاندانوں کی قیادت پر ہی ٹکی ہوئی ہیں، مگر ان میںسب سے پرانی جماعت بھارت کی انڈین نیشنل کانگریس جس نے ہی خطے میں خاندانی سیاست کی داغ بیل ڈالی ہے، کیلئے اب کرو یا مرو والی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ اگلے ایک سال میں گاندھی خاندان، جس نے آزادی کے بعد سے بیشتر اوقات اس پارٹی کی قیادت کی ہے، کی سیاسی قسمت کا فیصلہ بھی ہوجائیگاکیونکہ اس مدت کے دوران نو ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں، ان میں تلنگانہ کو چھوڑ کر بقیہ آٹھ صوبوں میں کانگریس کا براہ راست مقابلہ مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے۔
2024میںہونے والے عام انتخابات سے قبل ایک طرح کا انتخابی سیمی فائنل ہے۔ ان میں سے دو صوبے چھتیس گڑھ اور راجستھان فی الوقت کانگریس کے پاس ہیں۔ اگر پارٹی اس سیمی فائنل میںکارکردگی دکھانے میں ناکام ہوتی ہے، تو نہ صرف یہ عام انتخابات میں کسی بھی اتحاد کی قیادت کرنے سے نا اہل ہوجائیگی، بلکہ امکان ہے کہ اسی کے ساتھ گاندھی خاندان کو بھی سیاست سے بوریہ بسترہ لپیٹ لینا پڑے گا۔ راہول گاندھی کی قیادت میں پارٹی ابھی تک دو عام انتخابات اور 49میں سے 39اسمبلی انتخابات2014 اور 2022 کے درمیان ہار چکی ہے۔بتایا جاتا تھا کہ پارٹی کے پاس ٹرمپ کارڈکے طور پر سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن کے بعد وہ اسی سال سب سے بڑے صوبہ اترپردیش میں سرگرم ہوئی تھیں ۔ مگر وہ پارٹی کو صرف دو سیٹیںہی دلوا سکیں اور ووٹوں کا تناسب مزید کم ہوگیا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر راہول گاندھی نے7 ستمبر کو جنوبی ریاست کیرالا سے عوامی رابط مہم کیلئے ملک گیر مارچ شروع کردیا ہے، جو تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے 150دنوں میں کشمیر میں اختتام پذیر ہوگا۔
اسی کے ساتھ پارٹی نے 22 سال بعد صدارتی انتخابات کا بھی اعلان کیا ہے اور گاندھی خاندان نے اس بار اپنے آپ کو اس دوڑ سے باہر رکھا ہواہے۔ پارٹی کے معمر دلت لیڈر ملک ارجن کھرگے، جن کو اس خاندان کا آشیرواد حاصل ہے، معروف بین الاقوامی سفارت کار اور مصنف ششی تھرور کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے سوچا سمجھا دائو ہے، کیونکہ ہار کی صورت میں ٹھیکرا صدر کے سر پھوڑا جائیگا اور جیت کا سہرا راہول گاندھی کی عوامی رابط مہم کودیا جائیگا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے چونکہ نہ صرف کانگریس مکت بھارت یعنی کانگریس سے آزاد بھارت کا نعرہ دیا ہے اور خاندانی سیاست خاص طور پر گاندھی خاندان کو نشانہ پر رکھا ہوا ہے، غیر گاندھی قیادت کی وجہ سے شاید یہ ہتھیار کچھ کند پڑ جائیگا۔ 2004میں من موہن سنگھ کو وزیر اعظم کے بطور نامزد کرکے سونیاگاندھی نے اسی طرح بی جے پی طرف سے ان کی غیر ملکی اطالوی نژاد ہونے کی مہم کی ہوا نکال دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایک پارٹی جس نے 54برسوں تک ملک پر حکومت کی ہو اور جس کا کیڈر تقریباً قریہ قریہ موجود ہے ،آخر اس قدر بے بس کیسے ہو گئی ہے؟35سال کے عرصہ میں اسکا ووٹ بینک 48فیصد سے گھٹ کر 19فیصد رہ گیا ہے، جبکہ اسی عرصے میں ہندو قوم پرست بی جے پی کا ووٹ بینک 7فیصد سے بڑھ کر 37فیصد ہوگیا ہے۔
پورے ملک میں 4036 ارکین اسمبلی میں اسکے صرف 691 ممبر ہیں۔ اس وقت کل 31 میں سے صرف دو صوبوں میں اسکی زیر قیادت حکومت ہے اور صرف تین میں یہ مخلوط حکومت میں شامل ہے۔ د سمبر 1885کو جب برطانوی سول سرونٹ اور ریفارمر الان اوکٹاوین ہوم نے بمبئی میں اس پارٹی کی داغ بیل ڈالی، تو اس کا مقصد یورپ کی طرز پر سیاسی اور جمہوری اقدار پر مبنی پارٹی نظام قائم کرکے عوام کو بااختیار بناکر اقتدار تک پہنچنے کا راستہ تیار کرنا تھا۔ مگر 1950کے بعد پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ، خاص طور پر بعد میں ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی نے خاندانی راج قائم کرکے پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کا جنازہ نکا ل دیا۔ پارٹی یا حکومت میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کیلئے قابلیت کی جگہ چاپلوسی اور ذاتی وفاداری میعار بن گئی۔ اگر کوئی غیر گاندھی خاندان کا فرد صدر بن بھی گیا، تو وہ برائے نام اور وقت گذاری کیلئے اس کا تقرر کیا گیا۔ ان کی دیکھا دیکھی یہ کلچر سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی سرایت کر گیا۔
مجھے یاد ہے کہ مارچ 1998کو جب ہم کانگریس پارٹی کور کرنے والے صحافی پارٹی کے صدر دفتر کے بریفنگ روم میں قومی ترجمان وی این گاڈگل کا انتطار کر رہے تھے، کہ اس وقت کے پارٹی صدر سیتا رام کیسری دورازہ کھول کر گاڈگل کی سیٹ پرآکر بیٹھ گئے۔ 1991میں راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد ان کی بیوہ سونیا گاندھی نے سیاست میں آنے سے منع کر دیا تھا۔ اسی لئے پہلے نرسمہا راوٗ اور پھر سیتا رام کیسری پارٹی کے صدر بنائے گئے تھے۔ پارٹی دو عام انتخابات پے در پے ہار گئی تھی۔ کیسری نے آتے ہی کہا کہ وہ پارٹی کی صدرات سے مستعفی ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور قیادت سونیا گاندھی کو سونپنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی سے جب بھی کبھی نہرو۔گاندھی خاندان دور رہا ہے، تو پارٹی کو زوال آیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی وہ بر یفنگ ہال سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ کانگریسی لیڈروں نے فوراً ہی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس یعنی کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ بلائی، جہاں کیسری کا استعفیٰ منظور کیا گیا، جبکہ اس نے ابھی تک استعفٰی ہی نہیں دیا تھابلکہ صرف خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کے کمرہ پر قبضہ کرکے ان کا سامان ایک جیپ میں ان کے گھر روانہ کردیا گیا اور سونیا گاندھی کو پارٹی کی لگام تھما ئی گئی۔
ان کے دور میں بھی 1999کا عام انتخاب پارٹی بری طرح ہار گئی، مگر پھر 2004اور2009کے انتخابا ت میں ان کی ہی قیادت میں پارٹی کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔ سونیا گاندھی کے دور میں پارٹی نے چار برین اسٹارمنگ سیشن منعقد کئے ، جن میں سے تین کو میں نے خود کور کیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے پنچ مڑ ی کے مقام پر 1998 میں ہوئے پہلے برین اسٹارمنگ میں پارٹی نے طے کیا تھاکہ چونکہ اب قیادت واپس گاندھی خاندان کے پاس آئی ہے اسی لئے اب کھوئی ہوئی سیاسی زمین واپس لائی جائیگی ،کسی اور پارٹی سے انتخابی اشتراک نہیں کیا جائیگا اور اپنے بل بوتے پر بی جے پی کا مقابلہ کیا جائیگا۔ مگر پھر پے در پے دو انتخابات ہارنے کے بعد 2003میں شملہ میں ہوئے۔ اجلاس میں بائیں بازو کے لیڈر ہرکشن سنگھ سرجیت کی ایما پر پارٹی نے سیکولرازم کو بچانے کے نام پر ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں 2004میں اس نے اقتدار حاصل کیا۔ کانگریس کو اکثر سیکولر پارٹی بتایا جاتا ہے۔ یہ تاریخ کے ساتھ نہایت ہی ناانصافی ہے۔ یہ سبھی آئیڈیالاجیوں کا مجموعہ رہی ہے۔ اس میں بائیں بازو کے نظریات والے لیڈران جیسے جواہر لال نہرو، کرشنا مینن ، مگر کٹر دائیں بازو والے لیڈران مدن موہن مالویہ، سردار ولبھ بائی پیٹل، ڈاکٹر راجندر پرساد وغیرہ بھی شامل رہے ہیں۔ موجودہ کانگریس میں بھی اگر ایک طرف لبرل جئے رام رمیش ہے، تو دوسری طرف کٹر ہندو وادی جناردھن دیویدی بھی ہیں۔ بی جے پی کے عروج سے قبل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس، سیاسی رغبت رکھنے والے اپنے کیڈر ز کو کانگریس میں شامل کرواتی تھی۔
ہاں2003کا سیشن کانگریس کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اسی لئے تھا، کہ پہلی بار اس میں طے ہوا کہ آرایس ایس کے نظریہ کا مقابلہ کرنا ہے۔ 2002کے گجرات کے مسلم کش فسادات نے سیاسی لیڈروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مقابلہ کرنے کیلئے تاریخ کی مسخ شدہ کتابو ں کا از سر نو جائزہ لیکر درسی کتب کے ذریعے پھیلائے گئے زہر کو ختم کرنے کا عمل شروع کرنا تھا۔ اسی کے ساتھ پارٹی نے یہ بھی تہیہ کیا کہ آرایس ایس کی طرز پر گراونڈ پر شاخیں کھولی جائینگی، جو علمی اور عملی استدلال سے فرقہ وارایت کا مقابلہ کرکے عوام کو میل جول سے رہنے کی تلقین کرینگی۔ 2013میں عام انتخابات سے ایک سال قبل جے پور میں تیسرے برین اسٹارمنگ سیشن میں جہاں تاج سونیا گاندھی کے صاحبزادے راہول گاندھی کے سر پر سجایا گیا ، وہیں آئیڈیالوجی کو دفن کرکے 1998کی پوزیشن کی واپسی کی گئی۔ اس میٹنگ میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کو آئیڈیالوجی سے زیادہ روزگار، اقتصادی ترقی اور ٹیکنالوجی سے لبھایا جاسکتا ہے۔ پارٹی کی نائب صدارت کی کمان سنبھالنے کے بعد نئی دہلی میں راہول گاندھی نے اپنی رہائش گاہ پر چھوٹے بیچز میں پارٹی کو کور کرنے والے صحافیوں اور ایڈیٹروں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یہ گفتگو اس حد تک آف ریکارڈ ہوتی تھی، کہ اندر قلم اور کاغذ لیجانے پر بھی باپندی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ساتھی نے جب ان سے شملہ سنکلپ (عزم) کے بار ے میں اور خصوصاً آر ایس ایس کے نظریہ سے مقابلہ کرنے کے بارے میں پوچھا، تو ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کسی آئیڈیالوجی سے ٹکرانے میں یقین نہیں رکھتی ہے اور ایک سنٹرسٹ پارٹی کے بطور سبھی کو ساتھ لیکر چلنے میں یقین رکھتی ہے۔ مگر اگلے 2014کے انتخاب میں 545رکنی ایوان میں اسکی تعداد 206 سے گھٹ کر بس 44رہ گئی اور پھر 2019میں یہ تعداد صرف 52تک ہی پہنچ پائی۔ پچھلے تیرہ سالوں میں 211منتخب نمائندے ، جن میں اراکین اسمبلی و پارلیمان شامل ہیں، پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔
وہ سبھی نوجوان چہرے، آر پی این سنگھ، جیوتی رادتیہ سندھیا، جیتن پرسادا اور دیگر جن کیلئے 2013کے سیشن میں نظریہ کو دفن کر دیا گیا تھا، اس وقت بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر راہول گاندھی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ان کا اخراج راہول کیلئے ذاتی نقصان تھا، کیونکہ یہ ان کے دوون بورڈنگ اسکول کے ساتھی تھے اور ان پر انہوں نے خاصا تکیہ کیا تھا۔ 2019کے انتخابات میں شکست کے بعد راہول گاندھی نے ذمہ داری قبل کرکے استعفیٰ دیا اور پارٹی نے ان کی والدہ سونیا گاندھی کو کارگذار صدر بنایا۔
چوتھا برین اسٹارمنگ سیشن اسی سال مارچ میں راجستھان کے اودے پور شہر میں منعقد کیا گیا، جس میں پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کے احیاء کا ذکر کیا گیا اورراہول گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ آئیندہ صدراتی انتخاب نہیں لڑیں گیااور قیادت کسی غیر گاندھی لیڈر کے سپرد کرینگے۔ وزیر اعظم مودی کی طرف سے خاندانی راج پر چوٹ کرنے اور ان کے اس ہتھیار کو کند کرنے کیلئے ایک فیملی ایک پوسٹ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ یعنی ایک فیملی سے ایک ہی فرد کو پارٹی عہدہ یا ٹکٹ دیا جائیگا۔ اسی طرح ایک آدمی ایک پوسٹ یعنی ایک لیڈر کو ایک ہی عہدہ ملے گا۔ اگراقتدارمیں آنے کی صورت میں کوئی وزیر بنتا ہے تو اسکو پارٹی پوسٹ چھوڑنا پڑیگا۔ذرائع کے مطابق یہ نکتہ زیر بحث آگیا کہ مڈل کلاس جس کی تعدار اب کل آبادی کا 50فیصد ہے، خاندانی سیاست کو ناپسند کرتا ہے۔
اس اجلاس میں شملہ سنکلپ کا اعادہ کرکے ایک بار پھر آر ایس ایس سے دو ہاتھ کرنے کیلئے سیکولرازم اور آئیڈیالوجی کو موضوع بنانے کا عزم کیا گیا۔ علاقائی پارٹیوں پر چوٹ کرکے بتایا گیا کہ ان کیلئے نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ موقع کی مناسبت کے حساب سے کبھی بی جے پی کا ساتھ دیتی ہیں ، تو کبھی سیکولرازم کا لبادہ اوڑھتی ہیں۔ عوامی رابطہ مہم اور غیر گاندھی خاندان کے فرد کو اندرونی انتخابات کے ذریعے کمان دینا اپنی جگہ، مگر جب تک کانگریس گراونڈ یعنی بلاک لیول تک انتخابات کو یقینی نہیں بناتی ہے، تب تک اس مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرکزیت کو ختم کرکے ضلعی صدور کو بااختیار بنایا پڑے گا۔ بجائے دہلی سے پارلیمنٹ یا اسمبلی کیلئے کسی کو منڈیٹ دینے کے یہ اختیار ضلعی صدور اور کمیٹی کو دینا چاہئے اور اسی کے ساتھ ان کی باز پرس بھی ہونی چاہئے اگر ان کا چناہوا امیدوار الیکشن میںکارکردگی نہیں دکھاتا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے بھی انتخابات عمل میں آنے چاہئے۔ اس کا حال تو یہ ہے کہ اس کے سبھی 22اراکین پارٹی صدر کے چنے ہوئے ہیں ۔
اس کی فیصلہ سازی کی قوت کو مزید کم کرنے کیلئے 50مزید افراد کو بطور’’مدعو اراکین‘‘ بلایا جاتا ہے۔ سبھی اہم فیصلے کانگریس صدر کی صوابدید پر چھوڑدیے جاتے ہیں۔ ایک بار تو خود راہول گاندھی ہی پھٹ پڑے تھے کہ اگر کانگریس صدر کو ہی فیصلہ کرنا ہے تو اس مجلس کی کیا ضرورت ہے؟ 2014میں بد ترین شکست کے بعد راہول گاندھی کو ایک سنہرا موقع ملا تھا کہ پوری طرح فلٹریشن اور تطہیر کرکے کانگریس کو غیر ضروری اور چاپلوس عناصر سے پاک و صاف کرکے اسکو ایک حقیقی جمہوری اور لبرل پارٹی کے بطور پیش کریں۔ وہ یورپ کی سیاسی پارٹیوں کی طرح حقیقی اندرونی جمہوریت کوبحال کرنے پر توجہ مرکوز کرکے پارٹی سے چاپلوسی اور طرفداری کا کلچر ختم کرسکتے تھے۔ یہ کام کسی حد تک انہوں نے یوتھ کانگریس میں کیا تھا۔ مگر نہ معلوم اس طرح کی کوئی اصلاح وہ کانگریس میں کیوں نہیں لا سکے۔ خیر اس وقت یہ پارٹی ایک بڑے امتحان سے گذر رہی ہے۔
اگلے سال تک اسکی اورگاندھی خاندان کی قسمت کا فیصلہ ہونے کا امکا ن ہے۔ کانگریس کی قسمت اور اسکے فیصلے خاصے دورس ثابت ہوسکتے ہیں اور انکا اثر نہ صرف بھارت، بلکہ پاکستان،بنگلہ دیش کی خاندانی سیاسی جماعتوں پر بھی پڑ سکتا ہے ، کیونکہ ان ملکوں میں بھی اب مڈل کلاس تیزی سے ابھر رہا ہے اوروہ سیاست میں دلچسپی لے کر ایسے لیڈروں کی تلاش میں ہے جو اس کے آس پاس نظر آسکیں اور جن کے ساتھ اسکی اپنی شناخت ہوسکے ۔ یہ طبقہ محلوں میں رہنے والے راجے مہاراجوں جیسے سیاستدانوں سے بدکتا ہے، جو انکے ساتھ رعایا جیسا برتاوکرکے دور سے
ہی درشن دیتے ہیں۔
نوٹ :یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں