چنڈی گڑھ :پولیس نے ہریانہ کے کانگریس ایم ایل اے کو 31 جولائی کو نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے الزام میں راجستھان سے گرفتار کیا ہے۔ واضح ہو اس سے قبل بدنام زمانہ مونو مانیسر کو گرفتار کیا گیا تھا اور اب ممن خان کی گرفتاری ہوئی ہوئی جس کو بعض حلقے بیلنس کی کارروائی بتارہے ہیں ۔میوات کے فیروز پور جھڑکا کے ایم ایل اے ممن خان کو ایف آئی آر میں ملزم بنایا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے نوح پولیس نے ان سے پوچھ گچھ کی تھی۔ ممن خان کو جمعہ 15 ستمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ پولیس نے ایف آئی آر میں 52 ملزمان کو نامزد کیا تھا۔ ان میں سے اب تک 42 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ایک ملزم کی پہلے ہی ضمانت ہو چکی ہے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ممن خان کے خلاف جس کیس میں اسے ملزم بنایا گیا ہے ان کے خلاف "کافی ثبوت” موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے مطابق ہریانہ حکومت نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ پولیس کے پاس فون کال ریکارڈ اور دیگر ثبوت موجود ہیں۔
تاہم، ریاست کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل دیپک سبھروال نے عدالت کو بتایا کہ ممن خان کو 4 ستمبر کو ملزم بنایا گیا تھا۔ نوح میں تشدد 31 جولائی کو ہوا تھا۔
ایم ایل اے ممن نے منگل کو ہائ کورٹ میں اپنی گرفتاری روکنے کی اپیل کی تھی۔ عدالت میں دائر درخواست میں ایم ایل اے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اس کیس میں پھنسایا جا رہا ہے۔ جس دن تشدد ہوا وہ نوح میں نہیں تھا۔ ان کے پاس اس کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔
ایم ایل اے کے وکیل نے کہا کہ انہیں ابھی معلوم ہوا ہے کہ ان کا نام ایف آئی آر میں ہے۔ جسٹس وکاس بہل 19 اکتوبر کو کیس کی سماعت کریں گے۔ ہریانہ کے ایم ایل اے نے استدعا کی کہ نوح میں تشدد سے متعلق تمام معاملات کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) کو منتقل کیا جائے۔ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ٹیم پہلے ہی بن چکی ہے۔
نوح پولیس نے اس سے قبل ایم ایل اے کو دو بار تحقیقات میں شامل ہونے کو کہا تھا، لیکن وہ ان کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ پھر جب انہیں 31 اگست کو پوچھ گچھ کے لئے بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں وائرل بخار ہے اور وہ نہیں آسکتے ہیں۔
اپنی درخواست میں ممن خان نے کہا کہ وہ 26 جولائی سے یکم اگست تک اپنے گڑگاؤں کے گھر پر تھے نہ کہ نوح میں۔ پی ٹی آئی کے مطابق حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ثبوت ایم ایل اے کے خلاف ہیں۔ حکومتی وکیل نے کہا کہ کال ڈیٹیل ریکارڈ، فون ٹاور کے ذریعے اس کی لوکیشن ٹریک کی گئی، ایم ایل اے کے پرسنل سیکیورٹی آفیسر کا بیان اور دیگر شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایم ایل اے کا دعویٰ غلط ہے۔
ہریانہ حکومت نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ 9 ستمبر کو گرفتار ملزم توفیق نے ممن خان کا نام بھی لیا تھا۔ تشدد سے پہلے دونوں کے درمیان 29 اور 30 جولائی کو فون پر بات چیت ہوئی تھی۔