ٹیلی گراف نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ اتحاد کو انڈیا کا نام دینا قوم پرستی کے میدان جگ میں اپوزیشن کا آخری قدم ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ موجودہ سیاسی جنگ میں قوم پرستی بی جے پی کو واضح برتری دیتی نظر آرہی ہے۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے، "انڈیا نام کا انتخاب قوم پرستی پر بی جے پی کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کا دانستہ فیصلہ لگتا ہے۔ اس میں بھارت جوڑو یاترا کا بنیادی پیغام بھی شامل ہے جو برادریوں، ذاتوں اور مختلف ثقافتوں کے درمیان بھائی چارے کو مضبوط بنا کر ہندوستان کے آئیڈیا کو بچانے کی کوششوں پر مبنی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ آر ایس ایس کی پیداوار بی جے پی نے قوم پرستی کاایشوکانگریس سے چھین لیا جب کہ کانگریس ہندوستان کی تحریک آزادی سے پیدا ہوئی تھی اور آر ایس ایس کا اس تحریک میں کوئی کردار نہیں تھا۔
اخبار نے لکھا ہے، بی جے پی اپنی سیاست پر ‘نیشن فرسٹ’ کا ٹیگ لگانے میں کامیاب رہی ہے جبکہ اس کی ‘ہندو قوم پرستی’ آئینی اصولوں کے قریب نہیں ہے۔
بی جے پی نے اپنی اکثریتی پالیسیوں سے نہ صرف ایک بڑی ہندو آبادی کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ سیکولر جماعتوں کو بھی قوم پرستی کے فریم ورک سے باہر کر دیا۔
مضمون میں اخبار نے لکھا ہے کہ راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے اس امتیازی اکثریت پسندی اور پرتشدد قوم پرستی کا جواب دینے کی کوشش کی تھی اور اب اسی احساس کے ساتھ مودی مخالف اتحاد کو بھارت کا نام دیا گیا ہے۔
حالانکہ اس نام کو قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اپوزیشن اتحاد کے اس علامتی نام سے بی جے پی زیادہ آرام دہ نہیں ہوگی۔
حالانکہ یہ واضح ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی ہیں کہ یہ لڑائی اقتدار پر قبضہ کرنے کی نہیں بلکہ ہندوستان کو بچانے کی ہے۔